Idhariya

پینڈورا پیپرز ‘ دور کے ڈھول سہانے

پینڈورا پیپرز کے نام سے صحافیوں کی تحقیقاتی ٹیم کی مرتب کردہ رپورٹ میں پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں سے ماضی یا موجودہ وابستگان سابق اعلیٰ سول و عسکری افسران اور ان کے رشتہ داروں کے نام سامنے آئے ہیں پانامہ پیپرز کی طرح یہ رپورٹ اس حد تک دھماکہ خیز نہیں کہ اس میں وزیر اعظم کا نام شامل ہوالبتہ وفاقی کابینہ کے اراکین کے نام اور حکمران جماعت سے وابستگان کے نام بہرحال شامل ہیں۔جن کے خلاف کارروائی وزیر اعظم کے لئے امتحان سے کم نہ ہو گا ۔پنڈورا پیپرز میں پاکستانی سیاستدانوں، سابق فوجی افسران اور ان کے اہل خانہ سمیت درجنوں پاکستانیوں کی آف شور کمپنیز کی معلومات سامنے آنے پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ان افراد کے خلاف تحقیقات کی جائیں گی۔پنڈورا پیپرز کا خیر مقدم کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ تحقیقات کے نتیجے میں اگر کچھ غلط ثابت ہوتا ہے تو ان افراد کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے گی۔یاد رہے پنڈورا پیپرز میں سامنے آنے والی دستاویزات میں متعدد ایسی آف شور کمپنیوں اور کئی ملین ڈالر مالیت کے ٹرسٹ کے بارے میں معلوم ہوا ہے جو مبینہ طور پر پاکستان کی سیاسی اور عسکری اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے مختلف افراد کی ملکیت ہیں۔صحافیوں کی تحقیقاتی تنظیم انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے)اور ان کے ساتھی میڈیا اداروں کی طرف سے کی جانے والی اس تحقیق کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے ایک اہم اتحادی سمیت کابینہ کے تین ارکان اور ان کے اہل خانہ، پاکستان کی فضائیہ کے سابق سربراہ کے اہل خانہ سمیت پاکستانی بری فوج کے اہم عہدوں سے ریٹائر ہونے والے افراد اور ان کے اہل خانہ شامل ہیں۔آئی سی آئی جے کی تحقیق میں ابتدائی طور پر سامنے آنے والے ناموں میں وفاقی کابینہ اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کے علاوہ مسلم لیگ( ن) کے سابق وزیرخزانہ کے بیٹے کا نام بھی شامل ہے۔اصولی طور پر جن پر الزامات لگے ہیں اگر وہ حکومتی عہدیداروں پر ہیں توان کو استعفے دے کر اپنے خلاف تحقیقات کا خیر مقدم کرنا چاہئے یا پھر وزیر اعظم عمران خان ان کے بارے میں کوئی فیصلہ کریں لیکن وزیر اعظم کے بیان سے تحقیقات کے بعد مشروط کارروائی سے امید وابستہ نہیں کی جا سکتی ویسے بھی پانامہ پیپرز میں نام آنے کے بعد ایک خاص قسم کا تحرک ضرور دکھایا گیا تھا مگر کسی کو سزا نہ ہو سکی پانامہ لیکس کے بعد کی صورتحال سے لیکر پینڈورا پیپرز سامنے آنے تک کے حالات کسی سے پوشیدہ نہیں پانامہ لیکس میں کتنی شخصیات کا نام آیا تھا آج بھی ان کا نام دستاویزات ہی میں موجود ہے وگر نہ وہ وقت گزر چکا مگر ہنوز ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔ اس طرح کے معاملات کے سیاسی پہلو کو قانونی پہلوئوں پر اہمیت دینا سب سے بڑی غلطی ہے اس مرتبہ سیاسی مصلحت کے تقاضوں کے پیش نظر ”مٹی پائو” والا
فارمولہ متوقع ہے جس سے قطع نظر اگر قانونی طور پر معاملات کا جائزہ لیا جائے تو ماہرین کے مطابق قانون میں کمزوریاں لوگوں کو بغیر کسی خلاف ورزی کے ٹیکس بچانے کے راستے فراہم کرتی ہیں اور وہ ایسے مقامات پر اپنا پیسہ رکھتے ہیں اور کمپنیاں بناتے ہیں جہاں ٹیکسوں پر چھوٹ ہے۔ غیر قانونی نہیں لیکن اس عمل کو غیر اخلاقی ضرور سمجھا جاتا ہے۔برطانوی حکومت کے مطابق اس طرح ٹیکس بچانا قانون کے دائرے میں تو ہے لیکن قانون کی روح کے مطابق نہیں۔ماہرین کہتے ہیں کہ کئی لوگوں کے پاس ایسی جگہوں پر اپنی دولت رکھنے کی جائز وجوہات بھی ہوتی ہیں جن میں غیر مستحکم سیاسی حالات اور مجرمانہ حملوں سے اپنے آپ کو بچانا۔شامل ہے۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے لیکن قانون رقم کوچھپانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ امر واقع یہ ہے کہ خفیہ کمپنیوں میں پیسہ رکھنا اور اسے ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنا غیر قانونی دولت چھپانے کا بھی بہترین طریقہ ہے۔حکومتوں سے ٹیکس میں چھوٹ اور دولت چھپانے کے راستے بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ پانامہ پیپرز کے سکینڈل کے بعد اس مطالبے نے زور ضرور پکڑا مگر اس حوالے سے اس طرح کے اقدامات اور عالمی سطح پر اتفاق کی کوئی صورت نظر نہیں آئی اور نہ ہی اس امر کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لئے جن اقدامات اور سختی کی ضرورت ہے پاکستان میں اعلیٰ شخصیات پر اس میں ملوث ہونے کے الزامات اور تحقیقات کے باوجود ہنوز عدالت سے حتمی سزا اور اس کے نفاذ کا طویل و پیچیدہ مرحلہ باقی ہے حکومت اس حوالے سے قانون سازی مزید ملزمان کا سراغ لگانے اور ان کو کٹہرا میں کھڑا کرنے میں ابھی کامیاب نہیں ہو سکی ہے حالانکہ بدعنوانوں کے خلاف سخت ترین کارروائی موجودہ حکومت کا سب سے بڑا اور مقبول نعرہ ہے ۔ ایسے میں موجودہ صورتحال میں سوائے چند روز سیاسی ہنگامہ اٹھنے الزام تراشی و جوابی اور وضاحت و توجیہہ سے بات آگے بڑھنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا اور لگتا یہی ہے کہ پہلے کی طرح اب بھی سرکاری شخصیات کے خلاف کارروائی کا مطالبہ ہوگا اور سارا عمل دہرایا جائے گا جو پاناما پیپرز کے وقت ہوا تھا۔کسی ملزم کو مجرم بنا کر اس کو سزا نہیں دی جائے گی۔ عدالتوں میں بھی کسی سنجیدہ کارروائی کی امید نہیں بہرحال یہ ان کا معاملہ ہے ۔ میاں نواز شریف کی حکومت نے خواہ کتنے ہی جرائم کیے ہوں ان کے وزرا کی لوٹ مار اور شریف خاندان کو ناجائز فائدے پہنچے ہوں لیکن انہیں پانامہ لیکس پر سزا نہیں ہوسکی۔ کسی اور مقدمے میں پھنسایا گیا۔ اب بھی اس معاملے کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ان تمام عوامل کے باوجود عوام وزیر اعظم عمران خان کی تحقیقات اور سزا دینے کے اعلان کوہم سنجیدگی سے دیکھتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ اس کی تکمیل ہو اس ضمن میں وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ سب سے پہلے اپنے ارد گرد کے افراد کے خلاف تحقیقات اور عدالتوں سے رجوع کو ترجیح دیں سیاسی مخالفین سرکاری افسران بشمول سول و سابق فوجی افسران کے خلاف تحقیقات کو دوسری ترجیح میں رکھیں ایسی تحقیقات ہونی چاہئے کہ لوگ احتساب ہوتا ہوا دیکھیں اور اس کے بلا امتیاز ہونے کا یقین بھی آئے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی