ہمارا نظام تعلیم خرابی کی طرف کیوں؟

وطن عزیز کی آزادی کے74سال بیت گئے اس طویل عرصے میں ہم ترقی کی بجائے غربت، افلاس،جہالت اور پستی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ہر نئی حکومت جب بنتی ہے تو وہ غربت ، افلاس،جہالت اور مہنگائی کو ختم کرنے کے وعدے کرتی ہے کہ ہم ملک کو تعلیمی ترقی دیں گے تاکہ ملک کی ترقی کا سفر شروع ہوسکے اور ہمارا ملک خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں شامل ہو جائے لیکن پھر وہ اپنے اعلانات کے برعکس چلتی ہے۔ عوام کی قسمت میں سبز باغ دکھانا ہے میلے کے مداری جس طرح لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں یہی حال ان کا بھی ہے غربت کے خاتمے کے لیے کوئی بینظیر انکم سپورٹ اور کوئی احساس پروگرام پیش کرتا رہا ہے۔ کیا ایسے پروگرامات سے غربت کا خاتمہ ممکن ہے؟ اس کا جواب ہے کھبی نہیں کیونکہ ہمارے ملک میں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے اس طرح کے پروگرامات سے جو لوگوں کے ساتھ تعاون ہو رہے ہیں یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔ قوم کی ترقی بہترین تعلیم کے ساتھ وابستہ ہے روئے زمین پر وہ ممالک ترقی یافتہ ہیں جن کا تعلیمی نظام بہتر ہے تعلیم کی بدولت انہوں نے سائنس ، ٹیکنالوجی اقتصادیات ، تجارت اور صنعت و حرفت میں ترقی کی ہے۔ ہمارے ملک کا تعلیمی نظام روز بروز خرابی اور تباہی کی طرف جارہا ہے اس کا اندازہ آپ نے موجودہ نتائج سے اخذ کیا ہوگا کہ سی ایس ایس کے رزلٹ میں دو فیصد کنڈیڈٹ پاس ہوئے ہیں اسی طرح خیبر پختونخوا کے تمام تعلیمی بورڈز نے جو نتائج دیئے ہیں وہ بہت مایوس کن ہیں۔ طلبا کو زیادہ نمبرات سے نواز گیا سوشل میڈیا پر ان کا مذاق اڑایا گیا اور خاکے بنائے گئے لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے ان پر تنقید کی کہ کیوں زیادہ مارکس طلبہ کو دئیے گئے ؟ حالانکہ کرونا وائرس کی وجہ سے اکثر تعلیمی ادارے بند تھے طلبا سے صرف تین اختیاری پرچوں میں امتحان لیا گیا باقی پرچوں میں حکومت نے بورڈز کو کئے فارمولے دئیے اور انہی فارمولوں کے ذریعے مارکس دئیے گئے گویا ایک خیراتی نظام تھا اس فیصلے میں کوئی انصاف نظر نہیں آیا اس بے
انصافی کی وجہ سے عوام میںغصہ، بے چینی اور پریشانی پائی جاتی ہے سوال یہ ہے کہ اس سارے عمل میں غلطیاں کس کس کی ہیں؟ موجودہ رزلٹ میں حکومت اور بورڈز دونوں سے غلطیاں ہوئی ہیں ان کا آپس میں مشاورت کا فقدان پایا گیا۔ حکومت نے مارکنگ کے حوالے سے کچھ فارمولے دئیے جسے بورڈز نے من و عن تسلیم کیا دوسری طرف تعلیمی بورڈز کی طرف سے پیپرز مارکنگ میں نرمی برتی گئی خیبر پختونخوا میں آٹھ امتحانی بورڈز ہیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ طلبا کو زیادہ نمبرز دینے میں مقابلہ کر تے رہے میرٹ اور معیار کا خیال نہیں رکھا گیا ایک بورڈ نے ایک طالبہ کو1100میں 1100مارکس دئیے ان خامیوں کی وجہ سے بورڈز کا امتحانی نظام، پیپر مارکنگ اور رزلٹ کی شفافیت مشکوک ہوئی۔تعلیمی بورڈز میں اہم آفیسرز جیسے کنٹرولر، سیکرٹری اور چیئرمین وہ بنیادی طور پر اساتذہ ہوتے ہیں ان کے زیر نگرانی امتحانات منعقد ہوئے امتحانی ہالوں میں سپرنٹنڈنٹ، نگران عملہ، انسپکٹرز، پیپرز بنانے والے اور پیپرز مارکنگ والے سب کے سب اساتذہ ہوتے ہیں ۔ پھر بھی ہم فریاد کرتے ہیں کہ امتحانی نظام ٹھیک نہیں۔بعض تعلیمی ادارے زیادہ مارکس حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں امتحانی عملے کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے طلبا سے رقم وصول کرکے اس پر عملے کے لیے پر تکلف کھانے کا انتظام ، مختلف علاقوں کی سیروسیاحت اور تحفے و تخائف سے دئیے جاتے ہیںمیرے خیال میں بورڈز کے اندر اور بورڈز کے ساتھ وابستہ افراد اپنے فرائض کے ساتھ مخلص نہیں ہیں ۔ وہ سنجیدگی سے اپنے فرائض سرانجام نہیں دیتے جو افراد غفلت اور کوتاہیاں برتیں ان کے لیے سزا وجزا کا صحیح نظام
موجود نہیں لہٰذا ایسے افراد پر بورڈ کی طرف سے پابندیاں عائد کی جائیں تاکہ دوسرے افراد اپنی ڈیوٹیاں فرض شناسی کے ساتھ ادا کریں۔تعلیمی بورڈز کے اندر اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد سکولز اور کالجز سے ڈیپوٹیشن پر جاتے ہیں ۔ بورڈز میں ان کو پرکشش مراعات اور اور زیادہ مالی فوائد ملتے ہیں اس وجہ سے ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کو بورڈ میں تعینات کیا جائے۔اتنے زیادہ مالی فوائد کے باوجود ان کے نتائج میں سقم پایا جاتا ہے آخر یہ کام کون ٹھیک کرے گا؟ اکثر امتحانات میں ڈیوٹیاں اور پیپر مارکنگ کا کام مخصوص افراد سے لیا جاتاہے۔ پیپر مارکنگ میں اساتذہ احتیاط نہیں کرتے وہ زیادہ سے زیادہ پرچے دیکھنے کے خواہش مند ہوتے ہیں تاکہ زیادہ بل بنے یہی وجہ ہے کہ وہ سرسری نظر چیکنگ کرتے ہیں تو کسی کو زیادہ اور کس کو کم مارکس مل جاتے ہیں یہ کیسے ٹھیک ہوں گے؟ کہ ہم تعلیمی ترقی کر سکیں اور خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان بن جائے ۔ اس کے بارے میری کچھ تجاویز ہیں بورڈز کے لیے بہترین قانون سازی کی جائے ۔ سوالیہ پرچے قابل اور تجربہ کار اساتذہ سے بنائے جائیں ۔پرچوں میں ایم سی کیوز ایم سی کیوزکم یا بالکل ختم کئے جائیں کیونکہ اسے طلبا نقل کرکے حل کرتے ہیں۔ جن افراد نے رشوت یا دوسرے ناجائز طریقوں سے طلبا کو نقل کرانے میں مدد کی اور ان کے خلاف ثبوت ملے تو ان پر تاحیات بورڈ کے دروازے بند کئے جائیں ہر قسم ڈیوٹی کی پابندی لگائی جائے تاکہ دوسرے اس سے عبرت حاصل کر سکیں ۔متعلقہ سبجیکٹ سپیشلسٹ سے پیپرز مارکنگ کی جائے ہر استاد کو امتحان کے بعد 300سے زیادہ پیپرز مارکنگ کے لیے نہ دئیے جائیں تاکہ وہ آسانی اور تسلی سے مارکنگ کرسکے۔ البتہ ایک پرچہ کا معاوضہ پچاس روپے سے زیادہ مقرر کیا جائے ۔بورڈز میں باہر سے آنے والوں یعنی ڈیوٹیاں کرنے والوں کی اجرت بروقت ادا کی جائے ۔بورڈز کے کاموں میں غفلت اور خیانت کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں مقرر کی جائیں۔ اساتذہ کو امتحانات اور پیپر مارکنگ کے بارے میں باقاعدہ ٹریننگ دی جائے۔ ممتہمین ، انسپکٹرز اور پیپر مارکنگ کی اجرت میں اضافہ کیا جائے ۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''