ہم مشرق وسطیٰ سے الگ نہیں

مسلم امہ میں پاکستان کا کردار جس قدر اہمیت کا حامل ہے، اسی قدر پاکستان کو مسائل کا سامنا بھی ہے، سکیورٹی ایشوز نے طویل عرصے سے پاکستان کو گھیر رکھا ہے، ہم ایک مشکل سے نکلتے ہیں تو دوسری مشکل ہماری راہ تک رہی ہوتی ہے، تاہم ہمارے سکیورٹی اداروں بالخصوص افواج پاکستان نے بہت جانفشانی سے تمام سازشوں کا قلع قمع کیا ہے، نائن الیون کے بعد جن حالات نے مسلم امہ کو اپنے شکنجے میں لے رکھا تھا اس کا سب سے زیادہ شکار پاکستان ہوا ہے، پاکستان نے امریکہ کی ایما پر دہشتگردی کی نام نہاد جنگ میں قربانیاں دی ہیں، مالی نقصان الگ اٹھانا پڑا ہے، معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی معیشت کی زبوں حالی کی بنیادی وجہ امریکہ کی جنگ میں شمولیت اختیار کرنا تھا اگر پاکستان امریکہ کی جنگ میں شمولیت اخیتار کرنے کی بجائے چین کی طرح اپنے داخلی مسائل پر توجہ دیتا تو ایشیاء کا ٹائیگر بن چکا ہوتا، مگر ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی جنگ کا حصہ بنا لیا گیا، امریکہ نے گزشتہ بیس سال کے دوران افغانستان میں بے مقصد جنگ لڑی ہے، ان مقاصد کی خود امریکیوں کو سمجھ نہیں آ سکی ہے، یہی وجہ ہے کہ جب جو بائیڈن نے عنان اقتدار سنبھالی تو سب سے پہلے یہ سوال اٹھایا کہ امریکہ افغانستان میں کس مقصد کیلئے لڑ رہا ہے؟ جوبائیڈن نے اسی سوال کو جواز بنا کر کابینہ کو قائل کیا اور یوں بیس سالہ امریکی جنگ کا اختتام ہو گیا مگر دوسری طرف ہم گزشتہ بیس برسوں میں اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر امریکی جنگ سے نکلنے کا فیصلہ کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ یہ سازش صرف پاکستان کے خلاف ہی نہیں کی گئی بلکہ مسلم امہ کے سرکردہ دیگر ممالک کو بھی مختلف ایشوز میں الجھا کر اپنا اسلحہ بیچا گیا، سعودی عرب کو یمن جنگ میں دانستہ طور پر مصروف رکھا گیا تاکہ سعودی عرب مسلم امہ کے مسائل کی طرف او آئی سی کے پلیٹ فارم سے توجہ نہ دے سکے۔ اس کھیل کے پس پردہ اصل قوتوں کے عزائم یہ تھے کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جائے، سو اس لحاظ سے پاکستان اور سعودی قیادت نے دانش مندی کا مظاہر کیا ہے اور لوگوں کو جنگ کا ایندھن بننے کی بجائے مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ اب ایران اور سعودی عرب قیادت کے درمیان روابط کا قائم ہونا اہم پیش رفت ہے، آنے والے دنوں میں ممکن ہے اغیار غلط فہمیان پھیلا کر دوریاں پیدا کرنے کی کوشش کرے، اس لئے دوطرفہ قیادت کو اس جانب خاص توجہ دینی ہو گی تاکہ مذاکرات کسی حتمی نتیجے پر پہنچ سکیں۔ مسلم امہ کے بڑے ممالک کے درمیان تعلقات استوار ہونا اس لئے بھی ضروری
ہیں تاکہ یکسوئی کے ساتھ چھوٹے ممالک کی سربراہی کا فریضہ انجام دے سکیں۔
مشرق وسطیٰ کے اسفار اور مشترکہ ورثہ کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ ہم مشرق وسطیٰ سے الگ نہیں ہیں، ہمارا مذہب،ہماری اقدار و روایات ایک ہیں، اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کسی ایک مسلم ملک کو کوئی گزند پہنچتی ہے تو پوری مسلم امہ اس کا درد محسوس کرتی ہے، پاکستان اور سعودی عرب کو مسلم کے امہ کے سربراہان کے طور پر جانا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب کسی مسلم ملک کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو انہی دو ممالک کی طرف دیکھا جاتا ہے، پاکستان مسلم امہ کی واحد ایٹمی قوت ہے ، سب سے بڑی منظم فوج ہے جس سے بلاشبہ ہمیں فخر ہے لیکن دوسری طرف پاکستان کو بے شمار مالی مسائل بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، حالات اس بات پر شاہد ہیں کہ پاکستان کو جب بھی مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے سعودی عرب نے ہمارا ساتھ دیا ہے، چند روز قبل وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ سعودی عرب سے عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے سے پڑنے والے بوجھ میں ریلیف کے لئے تیل کی درآمد پر مؤخر ادائیگیوں کی سہولت دینے کے لئے معاہدہ تقریباً طے پاگیا ہے، اس کا اعلان چند روز میں متوقع ہے، جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو سعودی عرب نے پانچ ارب ڈالر کیش دیئے، یہ رقم آہستہ آہستہ واپس کی گئی۔ صرف یہی نہیں بلکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) میں سعودی عرب شامل ہو کر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا خواہش مند ہے جس کیلئے ابتدائی طور پر کام بھی ہو چکا ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان کی قیادت بھی گذشتہ سات دہائیوں سے مثالی اور برادرانہ تعلقات کی اہمیت سے واقف ہے اور اس سمت میں مثالی پیش رفت رہی ہے ہر دور میں جو بھی حکومت ہو اس کے سعودی عرب کے ساتھ خوشگوار تعلقات رہے ہیں، خواہ وہ باہمی ہو یا عالمی سطح پر۔ مشترکہ حکمت عملی کے تحت سیاسی، عسکری، معاشرتی اور امن کے میدانوں میں باہمی تعاون جاری رہا ہے جس سے دنوں ممالک کے تعلقات میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوا ہے، ایران اور دیگر ممالک کو بھی مزاحمتی مؤقف اپنانے کی بجائے مفاہمتی مؤقف اخیتار کرنا ہو گا تاکہ مسلم امہ کے حقیقی و دیرینہ مسائل پر توجہ دی جا سکے۔

مزید پڑھیں:  اسرائیل حماس جنگ کے 200دن