Mashriqyat

مشرقیات

بہت ہوچکیں تہمتیں سماج اور اس کے پروردہ من وتو پر۔۔۔آج کچھ شاعرانہ ماحول بنا کر طبیعت کو باغ وبہا ر بنا لیا جائے تو کیا حرج ہے ؟اردو شاعری میں ایک سے بڑھ کر اہل سخن اور ان کا کل کلام موجود ہے ہر کسی کی اپنی پسند ہے تاہم بعض مصرعے ایسے ضرب المثل بنے کہ سب کی پسند بن گئے حسب موقع تحریر اور تقریر میں ان مصرعوں کو ٹانک کر اپنا مطلب نکالا جاتا رہا ہے۔تاہم بہت سے لوگوں کو علم بھی نہیں ہوتا کہ جس ضرب المثل مصرعے کا وہ استعمال کررہے ہیں اس شعر کا پہلا مصرعہ کیا ہے۔مثال کے طور پر آپ نے اکثر سنا ہوگا اپنی بدنامی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو ”بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا”اس مشہور زمانہ شعر کا پہلا مصرعہ ہے ”ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام”۔شاید ہی یہ پہلا مصرعہ کسی کو یاد ہو۔رہ گئے شاعر تو نام تھا ان کا مصطفی خان شیفتہ۔
”خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آہی جاتی ہے ”یہ ایک اور ضرب المثل مصرعہ ہے اس کے پہلا مصرعہ اس شعر کا ہے ”گلہ کیسا حسینوں سے بھلا نازک ادائی کا”اور شاعر ہیں اس کے سرور عالم راز سرور۔آپ نے اکثر تحریروں میں اخفائے راز کے ڈر سے یہ مصرعہ دیکھا ہوگا ”اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں”یہ دراصل ایم ڈی تاثیر کا مشہور زمانہ شعر ہے جس کا پہلا مصرعہ ہے ”داور محشر میرا نامہ اعمال نہ دیکھ ””خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو”کا پہلا مصرعہ ”قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو” ہے اور اس کے شاعر ہیںمیاں داد خان سیاح۔”
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا”ایک اور مشہور ضرب المثل مصرعہ ہے۔پہلا مصرعہ ہے اس کا ”آخر گِل اپنی صرفِ میکدہ ہوئی”یہ شعر مرزا جواں بخت جہاں دار کا ہے اور یہ صاحب مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی کے بیٹے تھے۔مرزا داغ دہلوی کا یہ مصرعہ بھی سب کو ازبر ہے ”بہت دیر کی مہرباں آتے آتے”اس شعرکا پہلا مصرعہ ہے ”نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی”۔چراغ حسن حسرت کے شعر کا دوسرا مصرعہ ” کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا ” بھی بہت سوں کو ازبر ہے تاہم اس مشہور زمانہ شعر کا پہلا مصرعہ بھی اس کے ساتھ مقبول عامہ قرار دیا جا سکتا ہے ”غیروں سے کہا تم نے، غیروں سے سنا تم نے”اب آئیں انشاء اللہ خان انشا کے مشہور زمانہ مصرعے کی جانب۔”کچے دھاگے سے چلیں آئیں گے سرکار بندھے ”جب انہوں نے یہ شعر کہا تھا تو پہلے کہتے تھے ”جذبِ عشق سلامت ہے تو ان شا للہ”
ضرب الامثال بنے ان مصرعوں کی فہرست بڑی طویل ہے کچھ کا ذکر پھر کبھی سہی۔چلتے چلتے شوق بہرائچی کا شعر سن لیں
برباد گلستاں کرنے کو، بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گا
یہ دوسرا مصرعہ ہم کو بھولے نہیں بھولتا پہلا مصرعے پر کبھی توجہ ہی نہیں گئی۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا