غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکاراکرتے ہیں

سہ پہر کا وقت تھا ۔سب گھر والے لاؤنج میں بیٹھے تھے ۔بچے ٹی وی دیکھ رہے تھے ۔ ہم لیپ ٹاپ پر آن لائیو لائبریری سے ایک کتاب پڑھ رہے تھے ۔ساتھ ہی حبیب ولی محمد کی گائی ہوئی قمرجلالوی کی غزل
کب میرا نشمین اہل چمن گلشن میں گواراکرتے ہیں
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکاراکرتے ہیں
ہیڈفون لگائے سن رہے تھے ۔بندہ سریلا ہونہ ہواچھے گیت پر زیرلب گنگناتا ضرور ہے ۔ ہیڈ فون کا مسلہ یہ ہوتا ہے کہ اسے لگا لوتو باہر کی آوازیں سنائی نہیں دیتیں اور اکثر یہ گنگنانا تھوڑا سالاؤڈ ہوجاتا ہے ۔ ہم بھی اپنی ترنگ میں خود کو حبیب ولی محمد جونئیر تصور کرتے ہوئے کچھ زیادہ ہی اونچی آواز میں گنگنانے لگے تھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد بچے ہمیں گھور لیتے تھے ۔ہم یہ سمجھتے رہے شاید ہماری آواز انہیں اچھی لگ رہی ہے سو مسلسل گنگنانے پر تلے رہے۔اس دوران موصوفہ چائے لے آئیں ۔ کچھ مطالعہ کا اثر اور کچھ غزل کے سر اور کچھ اپنی ”آواز”کا تاثر۔ ہمیں احساس ہی نہ ہواکہ کیا ہورہا ہے ۔ جب غزل ختم ہوئی اور ہم نے چائے پینے کے ارادے سے ہیڈ فون اتارے تو موصوفہ نے ایک جملہ کہاکہ ”ہیڈ فون لگاکرآپ خود تو سریلے لوگوں کو سنتے ہیں ۔جبکہ ہمیں آپ کی آواز سننی پڑتی ہے ” ۔ایک قہقہ لاؤنج میں گونجا ۔ ہم بھی طوعاً وقرعاً ہنس پڑے ۔ ہنسنے میں ہی عافیت تھی کہ بات ہنسی مذاق میں ٹل گئی تھی ورنہ ہم تو کچھ زیادہ ہی متاثرہوگئے تھے اپنی آواز سے ۔ ہمیں تو اپنی اور حبیب ولی محمد کی آواز میں انیس بیس کا ہی فرق محسوس ہورہا تھا۔ سعید پارس ہمارے ایک موسیقار دوست ہیں ۔ان کی شاگردی سے بال بال بچے ورنہ ہم تو بس ارادہ باندھنے ہی والے تھے ،لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے ۔مایوسی تو ہوئی کہ گھر ہی میں ہماری ”موسیقیانہ ”صلاحیتوں کا اعتراف نہ کیا گیا تو باہر کو ئی کیاکرتا ۔ مسلہ یہ ہے کہ ہم طبعا ً ایک بہت مفید صلاحیت سے کبھی بھی مالا مال نہیں رہے ،اور وہ صلاحیت ہے ڈھیٹ ہونے کی۔یہ صلاحیت بے سرے لوگوں کے لیے توبالخصوص بہت اہم اور کارآمد ہوتی ہے ۔ افسوس ہوتا ہے خود میں اس بیش قیمت صلاحیت کو ناپاکر۔ آج کل کے جدید دور میں تو اس کی ضرورت کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے ۔ کبھی کبھی تو معاملات اتنے سنگین ہوجاتے ہیں کہ دل دکھتا ہے ۔کچھ عرصہ پہلے انٹر نیٹ پر” ون پاؤندفش” بیچنے والے ایک پاکستانی کی بس واجبی سی آواز میں گایا ہوا ایک گیٹ ”کم آن لیڈیزون پاؤنڈ فش”کو اتنی شہرت ملی کہ بیچارے کے لیے مسئلہ بن گیا کہ وہ اب مچھلی بیچے یا پھر گلوکار بنے ۔کیونکہ سٹار بننے کے بعد مچھلی بیچی نہیں جاسکتی اور گانا اسے آتا نہیں تھا۔ایک تکا تو لگ گیا آگے اس نے جو کچھ گایا وہ کسی نے سنا نہیں ۔ گویا فن کو بھی نقصان اور فنکار کو بھی مصیبت ۔ خداجانے اب ون پاؤنڈ فش والے محمد شاہد نذیر کہاں ہوتے ہیں ؟ گانا گاتے ہیںیا مچھلی بیچتے ہیں ۔صرف موسیقی کا ہی یہ حال نہیں بلکہ دوسرے فنون میں بھی شارٹ کٹس نکل آئے ہیں ۔اس انٹر نیٹ نے سارے فنون کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے ۔مشروم شاعروں کی ایک پوری کی پوری کھیپ تیار ہوچکی ہے جو اپنی ہی شاعری فیس بک پردوستوں کو ٹیگ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انہیں بہت سے لائیک بھی ملیں اور کمال کی بات ہے کہ ایسا ہوبھی جاتا ہے ۔جبکہ ماضی میں اس کام کے لیے استاد ہوا کرتے ہیں ۔ نوآموز شاعر استاد شاعروں سے تلمذکیا کرتے تھے اور سالہا سال ریاضت کے بعد کچھ سیکھ کر کچھ بن بھی جایاکرتے تھے ۔انسانی زندگی میں جب سے انٹر نیٹ اور موبائل فونز کا استعمال سامنے آیا ہے تب سے جہاں دوسری باتیں آسان ہوئی ہیں وہیں فن کے حوالے سے بھی آسانیاں بلکہ تن آسانیاں بھی وجود میں آگئی ہیں۔ خطرناک بات اس میں یہ ہے کہ موسیقی جو سکون بخشتی ہے اس موسیقی کی جگہ جو چیز سامنے آئی ہے وہ ہیجان خیزی ہے ۔ شور ہے ۔شعر کی بے معنویت ہے ۔اب توسُر کی جگہ بِیٹ نے لے لی ہے ۔ ڈرم کی دھمک نے شورمیں تو اضافہ کیاہے لیکن سُرکی وہ دبیز سی لہر جوکانوں مین رس گھولتی اور داخل میں کہیں آسودگی فراہم کرتی تھی آج کی موسیقی میں مفقود ہے ۔لیکن لتا ، رفیع، نورجہاں اور مہدی حسن کے گیت آج بھی زندہ ہیں۔کیونکہ ان میں تین بڑے فن یکجاہیں ۔موسیقی ،شاعری اور فنکار کی آوا ز،اس لیے وہ گیت امر ہوچکے ہیں ۔آج بھی پہلے جیسے تازہ اور دلنشین۔شاید یہ ہمارا ہی مسلہ ہونئی نسل کامسلہ نہ ہو۔جنریشن گیپ کے شکار ہم لوگ کر بھی کیا سکتے ہیں۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ ”وائے دس کولاویری ڈی”،”جلیبی بائی”اور ”سما پتاسا اے ”وغیرہ جیسے گیتوں کو ہم سمجھنے سے قاصر ہی رہے ہیں لطف اٹھانا تو دور کی بات ہے ۔نئی نسل کے بچے انہی گانوں کو سن سن کر یوں سر دھنتے ہیں جیسے استاد بڑے غلام علی کی کوئی ٹھمری سن لی ہو۔افسوس ہمیں اس بات کا ہے کہ بقول پطرس بخاری کہ ”موسیقی کی جوروح ہم میں بیدار ہوئی تھی”اس روح کو اسی وقت دبوچ لیا گیاتھا۔ ورنہ سیکھنے میں کیا حرج ہے ۔ اگر ہمیں گھرہی میں روکا اور ٹوکا نہ جاتا توضرور ہم کہیں ریاض کے لیے وقت نکال لیتے ۔ پر افسوس ایسا ہونہ سکا۔ اب ایک ہی علاج ہے جو ہم نے سوچا ہے کہ آئندہ ہیڈ فون لگا کر کبھی کوئی سریلا گانانہیں سنیں گے اور اگر ہیڈ فون لگا بھی لیا تو زیرلب گنگنایا نہیں کریں گے ۔اور کبھی گنگنابھی لیا تو اس پر ہرگزاِترایا نہیں کریں گے ۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا