نا بغوں کا موسم اور آزادی صحافت

سابق اپوزیشن لیڈر اور رکن قومی اسمبلی خورشید شاہ کی 21ماہ بعد سپریم کورٹ نے ایک کروڑ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کر لی ۔ نواز شریف 500 ارب روپے کی کرپشن(آمدنی سے زائد اثاثوں) کے الزام میں 21ماہ قبل گرفتار ہوئے تھے ۔ چند دن قبل تک 500 ارب روپے کا معاملہ دس کروڑ پر آکے رک گیا تھا اب سپریم کورٹ میں دلچسپ باتیں سامنے آئیں۔ جج صاحبان کے سوالات کے جواب میں نیب کے وکلاء نے جو کچھ کہا اس پر حیران ہونے کی ضرورت ہر گز نہیں۔ خواجہ سعد رفیق والے کیس میں درخواست ضمانت کا فیصلہ پڑھ لیجئے ۔ احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی کے معاملے میں بھی نیب کے پاس شرمندہ ہونے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ خورشید شاہ کے معاملے میں عدالت کہہ رہی تھی کرپشن کے ٹھوس ثبوت کہاں ہیں لائیں ہم بھی دیکھیں؟ جواباً آئیں بائیں شائیں۔ ایک بات یہ سامنے آئی کہ 40غیرملکی دوروں کا الزام ہے اس الزام پر سردھنتے ہوئے داد دیجئے ۔ بہر طور خورشید شاہ کی ضمانت ہو گئی ان کا نام ای سی ایل میں رہے گا۔ یاد آیا کبھی میاں نواز شریف پیپلز پارٹی کو سمندر برد کرنے کی خواہش رکھتے تھے ۔ وقت وقت کی بات ہے ۔ ہمارے متاثرین جماعت اسلامی البتہ اس معاملے میں مستقل مزاج ہیں وہ پیپلز پارٹی کا وجود آج بھی برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ خیر چھوڑیئے کیا باتیں لے بیٹھے ہم بھی۔ پسند و ناپسند ہوتی ہے یہ کوئی جرم نہیں خود ہم پی پی پی ‘ اے این پی اور قوم پرستوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں البتہ دوسری کسی سیاسی جماعت سے نفرت نہیں پالتے ۔ قلم مزدوری سے پیٹ پالتے ہیں اندھی محبت اور اندھی نفرت سیاسی جماعتوں کے ملازمت ‘ہمدردوں اور کارکنوں کا کام ہے انہیں مبارک ہو ان عناصر سے فقط اتنی درخواست ہے دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ۔
سوشل میڈیا پر ان دنوں بہت رونق لگی ہوئی ہے ۔ کچھ عناصر لندن میں مقیم ایک خاتون صحافی کے دفاع میں پیپلز پارٹی کی بھد اڑا رہے ہیں۔ ان صاحبان نے لگتا ہے کہ اپنی ”رضیہ سلطانہ”کے ٹیوٹ پڑھے بغیر تنقید شروع کر دی ہے اس پر ستم یہ ہوا کہ سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی مافی مانگتے دکھائی دیئے اسے بھی معلوم نہیں کہ اصل قصہ یا جھگڑا کیا ہے ۔ اس”رضیہ سلطانہ” کے پچھلے برسوں کے کالم اور سوشل میڈیا کی تحریریں اٹھا لیجئے پڑھتے جائیں شرماتے جائیں ایسے ایسے الفاظ ہیں کہ شاید کوئی مرد صحافی بھی ان الفاظ کو اپنی تحریروں میں شامل نہ کرے ۔ یہاں سب چلتا ہے پہلے گالی دوپھر عورت ہونے کا فائدہ اٹھائواور سیاپہ فروش شروع۔تنقید کرنے والوں میں سے ایک 2008 سے قبل امریکہ میں ٹیکسی کار چلاتے ھے ۔ پاکستان پہنچے تو پیپلز پارٹی نے انہیں ایک ملکی سطح کے ادارہ کا سربراہ بنا دیا اب وہ پیپلز پارٹی اور زرداری سے جو سلوک کر رہے ہیں دونوں اس کے مستحق بھی ہیں اصل قصہ یہ ہے کہ لندن سے بدزبانی کا آغازپی پی پی کے دوہزار آٹھ والے دور میں ہوا تھا پی پی پی کی سندھ حکومت نے ایک موہنجوداڑو کے حوالے ایک ثقافتی پروگرام کروایا۔ خاتون صحافی اس ثقافتی پروگرام میں ایک ڈرامہ رکھوانا چاہتی تھیں۔ نرخ طے نہ ہوپائے ‘ پھر ایک سٹیج شو پر بات چلی یہ بھی درمیان میں رہ گئی ۔ ا نہوں نے اسے اپنی توہین سمجھا اور پھر پنجاب کے ایک اخبار میں طوفان اٹھانے لگیں پچھلے دنوں انہوں نے بلاول کے حوالے سے چند جملے سوشل میڈیا پر لکھے ۔ جواب میں جیالے اتر گئے پرانے کالم اور سوشل میڈیا کی پوسٹیں سامنے لا کر سوال کرنے لگے اس کے بعد کیا ہوا وہی جو ”جالندھر میں ہوتا تھا” اب دونوں طرف کے لشکر میدان میں ہیں انجمن دفاع شمع نیزے بھالے سنبھالے ہوئے آزادی صحافت اور خاتون کے مقام مرتبہ کا تقدس بیان ہو رہا ہے اس تقدس بیانی کے دوران ”انجمن دفاع شمع” کے ایک سپہ سالار نے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی ذات کو لے کر چند ایسی باتیں لکھ دیں جس سے محاذ گرم ہو گیا۔ ساعت بھر کے لئے رکیئے آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سب کیوں لکھ رہا ہوں؟ اس لئے لکھ رہا ہوں کہ آزادی صحافت اور خاتون کے تقدس کی آڑ میں تاریخ مسخ کی جارہی ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے لئے وہی زبان استعمال کی جارہی ہے جو 1988ء میں مسلم لیگ اور آئی جے آئی والے استعمال کرتے تھے ۔
چلیں ایک اور قصہ سہی ‘ عاصمہ شیرازی کا نام بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر موجود ہے اسے پڑھ لیجئے اور یہ وزیر اعظم کے مشیر شہباز گل و ہمنوائوں کی پریس کانفرنس کا متن پڑھیئے اور خود فیصلہ کیجئے کہ عاصمہ شیرازی نے کیا کہا اور شہباز گل کیا رنگ دے کر کس کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس ساری کھیل میں وہ دن یاد آگئے جب ہمارے ٹی وی چینلوں کے اینکرز تنویر زمانی نامی ایک خاتون کو سامنے بیٹھا کر دعویٰ کرتھے تھے کہ یہ خاتون زرداری کی اہلیہ ہے اور امریکہ میں مقیم ہے ۔ ہمارے ان چھاتہ برداروں کو اس وقت اخلاقیات یاد تھیں نہ آزادی صحافت کی حدود ۔ ان دنوں ایک اینکر سے عرض کیا”ذرا یہ تو معلوم کر لیجئے کہ تنویر زمانی کی امریکہ سے پاکستان آمد کی ٹکٹ کس نے بک کروائی ہے اور وہ یہاں جس گاڑی میں گھوم رہی ہے وہ گاڑی کس کی ہے؟۔(شادی کی ایک تقریب میں ہوئی یہ گفتگو یقیناً انہیں یاد ہو گی) وہ اس سوال پر بھڑک اٹھے اور بلند آواز سے کہنے لگے تم پیپلز پارٹی کے تنخواہ دار ملازم اب مجھے صحافت سمجھائو گے ۔ میں نے ہنس کر کہا یہاں پیپلز پارٹی والوں نے میرے ایک کالم کی وجہ سے پی آئی اے سے نواز شریف دور میں نکالے گئے ملازمین کی بحالی کیوں نہیں ہوا اور کتنی تنخواہ دیتی ہے پیپلزپارٹی مجھے ۔ دوست درمیان میں پڑے معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ 1988 سے بے پرکیاں اڑانے کی جس ”صحافت” کا آغاز ہوا تھا وہ اب بھی جاری ہے ۔ آخری بات سے پہلے بات یہ ہے کہ ان دنوں ہماری قسمت میں ایسے ایسے نابغے لکھ دیئے گئے ہیں کہ رونے میں بھی مشکل پیش آتی ہے ۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر کہتے ہیں ڈالر کی قیمت بڑھنے سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو فائدہ ہوا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل یہی بات شوکت یوسفزئی نے بھی کہی تھی کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے ہمیں فائدہ ہوا ہے ۔ اچھا ویسے ڈالر 174روپے اور 40 پیسے کا ہو گیا ہے فقیر راحموں کل سے ڈالر کی قیمت بڑھنے کی حوالے سے جناب عمران خان کی پرانی تقریروں سے جی بہلا رہا ہے ۔ آخری بات یہ ہے کہ ہم نے ایف ٹی اے ایف کی گرے لسٹ سے کیا نکلنا تھا ترکی بھی چار ماہ کے لئے گرے لسٹ میں شامل ہو گیا ہے ۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام