کالعدم تنظیم اور حکومتی معاملات میں بہتری

کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان اور حکومت کے درمیان معاہدے اور کارکنوں کی رہائی کے ذریعے اعتماد سازی کے بعد اب پنجاب حکومت کی طرف سے تنظیم کو کالعدم قرار دینے کی سفارش سمری کے ذریعے واپس لے کراسے عملدرآمد کے لیے وفاق کو ارسال کرنے کا عمل ایک خاص مثبت پیشرفت ضرور ہے تاہم مفتی منیب الرحمن کی جانب سے فرانسیسی سفیر کی بیدخلی کے مطالبے پر قائم رہنے اور اس ضمن میں پیچھے نہ ہٹنے کا بیان ایک ایسا متنازع نکتہ باقی ہونے کا عندیہ ہے جس کے حوالے سے واضح فیصلے تک معاملات کا سلجھائو باقی رہے گا ، البتہ اس حوالے سے پارلیمان کے فیصلے کو تسلیم کرنے کا عندیہ مثبت امر ہے جس کے بعد یہ اونٹ بھی کسی کروٹ بیٹھ جائے گا۔ مفتی منیب الرحمن نے ایک مرتبہ پھر پاک فوج کے سربراہ کے مثبت کردار کا حوالہ دے کر حکومت پر درپردہ عدم اعتماد کا عندیہ دیا ہے۔
حکومت کی جانب سے اس حوالے سے مثبت پیشرفت کی توقع کی جا سکتی ہے کہ یہ معاملہ طے پا جائے گا۔ کالعدم تنظیم خود کو سیاسی قالب میںڈھال کر اگر اپنے مطالبات میں تبدیلی لاتی ہے یا پھر کم از کم تشدد کا راستہ ترک کر دے تو بھی قابل قبول امر ہو گا۔ کالعدم تنظیم اور حکومت کے حالیہ موقف ، تیاریوں اور ردِعمل کا جائزہ لیا جائے تو دونوں ہی تصادم کی راہ پر تھے، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد ہی تبدیلی اور نرمی اختیار کی گئی۔ حکومت نے تحریک لبیک سے نمٹنے کے لیے دو ماہ کے لیے رینجرز کی جو تعیناتی کی ہے اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی لہٰذا اس ضمن میں بھی کسی لائحہ عمل کا اعلان کر کے صورت حال کو مزید معمول پر لایا جائے اور کالعدم تحریک لبیک بھی اپنے وعدوں کے مطابق اس امر کو یقینی بنائے کہ حکومت کو سخت اقدامات کی تیاریوں کی ضرورت باقی نہ رہے۔
مقام اطمینان امر یہ ہے کہ احتجاج کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے، سڑکیں کھل گئی ہے، تصادم کا خطرہ ٹل چکا ہے ، ایک چند دن قبل کی حکومت اور کالعدم تنظیم کے رویہ اور معاملات کا جائزہ لیا جائے تودونوں ہی تصادم کی راہ پر تھے ، اس کی نوبت کیوں آئی اس کاجائزہ لینا اس لیے بھی ضروری ہے کہ آئندہ احتیاط کی جائے ، نیز معاملات میں سدھار آنے کے عوامل کا بھی جائزہ لیا جائے تو صورتحال کی بہتری کے اسباب و غلل واضح ہوں گی۔ دیکھا جائے تو کالعدم تحریک لبیک اسلام آباد کے گھیرائو پر تلی تھی اور حکومت بزور طاقت سڑکیں بند کر کے ، خندقیں کھود کر اور احتجاج کا راستہ بزور قوت روکنے پر نہ صرف آمادہ تھی بلکہ عملی طور پر تشدد کے واقعات میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوا۔ پھر معاملات کا حل بالآخر مذاکرات ، مفاہمت، بات چیت ہی کی صورت میںنکلا جو اس امر کی دلیل ہے کہ جب بھی اس طرح کے حالات ہوں لاٹھی ، گولی کی سرکار کا مظاہرہ کرنے کے بجائے مصالحت کا راستہ اپنایا جائے، اب جبکہ مصالحت کا راستہ خواہ جیسے بھی ہوا اختیار کیا گیا ہے تو فریقین کو چاہیے کہ وہ اسی جذبے پر کاربند رہتے ہوئے ا س معاملے کا مستقل حل تلاش کریں، دینی جماعتوں کو اسی طرح پرتشدد راستہ اختیار کرنے سے خاص طور پر گریز کرنا چاہیے اور مفاہمت و مصالحت کی ایسی راہ سے بھی گریز کرنا بہتر ہو گا جس سے اصل مقصد سے انحراف کا تاثر ملے ۔ حکومت اور اسی طرح کی تنظیموں کے لیے اس ساری صورتحال کا درس یہ ہے کہ وہ غیر حقیقت پسندانہ شرائط پیش کرنے اور ان کو قبول کرنے میں احتیاط سے کام لیں اور ایسا رویہ ہر گز اختیار نہ کیاجائے جسے برقرار رکھنا ممکن نہ ہو اور قدم واپس رکھنے پر مجبور ہونا پڑے۔ آئندہ اس امر کا بھی فیصلہ ہونا چاہیے کہ ہر تنظیم کو دستور کے مطابق پرامن احتجاج کا حق دیا جائے اور اس کا راستہ روک کر احتجاج کو پرتشدد بنا کر قیمتی جانوں کے ضیاع کی نوبت نہیں آنے دی جائے گی، آئین کے مطابق دی گئی آزادی کا استعمال اور اس کی اجازت ہو گی تو تصادم کی نوبت ہی نہیں آئے گی اور نہ ہی قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہو گا۔ ملکی املاک بھی محفوظ رہیں گی اور حکومت کو طاقت کے استعمال اور اس پر آنے والی لاگت کا بھی سامنا نہ ہو گا، نہ کاروباری حیات معطل اور زیادہ متاثر ہو گی۔ معیشت و اقتصاد بھی متاثر نہ ہو گی ، یہ سب کچھ اسی وقت ہی ممکن ہو گا جب تصادم سے گریز کی پالیسی حکومت اور مظاہرین و احتجاجیوں کی جانب سے اختیار کی جائے گی اور یہی موزوں احتجاج اور اس سے نمٹنے کا قانونی و دستوری طریقہ اور تقاضا بھی ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ حکومت اور کالعدم تنظیم اپنے اپنے مؤقف کا از سر نو جائزہ لیںگے اور مصلحت کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر ملک و قوم کو آئندہ کسی مشکل سے دوچار کرنے سے احتراز کریںگے۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ