کچھ کچھ ہوتا ہے

جب کچھ ہو رہا نہ ہو ں تو کچھ کچھ ضرور ہو تا ہے لہذا جب ٹی ایل پی کی تحریک سٹرکو ںپر گشت کررہی تھی تب بھی کچھ کچھ ہو رہاتھا کچھ نہیں تو قرطا س ابیض کی وحدت بھی موضو ع سخن رہا ، اب بھی کسی نہ پہلو سے کروٹ لے رہا ہے ، مگر سب سے زیا دہ اہم ترین جھٹکا ڈسکہ انتخابات کی دھاندلی کی رپورٹ سے ہو ا وہ جماعت جس نے 2014ء دھا ندلی کے خلا فت نو بت بجا کر ایک اودھم مچائی تھی آج اس کے آگے دیدہ دلیر سامنے آرہی ہے اس میں شک نہیں کہ دھا ندلی خلا ف دھر نے کو بڑی مقبولیت ملی تھی اور عوام تبدیلی کی چاہت بھی رکھتے تھے مگر ہو ا کیا صرف یا سیت چھا گئی ،مہنگائی کا احسا س تو خود وزیر اعظم کوبھی جس کا انھوںنے اپنی تقریر میں بھی کیا ، ان کے احسا س کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھو ں نے نا م لیے بغیر پاکستان کے دو خاندانو ں سے کہا کہ اگر وہ پاکستان سے باہر اپنی جو دولت لے گئے ہیں اس کا نصف بھی واپس لے آئیں تو وہ اشیاء خوراک کی قیمتیں آدھی کر دیں گے ، تاہم اگر وہ ان دوخاندانو ں کا نام بھی لے لیتے تو بہتر ہو تا اب اس بارے میں قیا س آرائیا ں کی جا رہی ہیں نقاد لو گ بھی عجب شے ہو تے ہیں ایک مخلصانہ پیش کش کو اپنے تنقید ی رنگ میںگلابی لا ل پیلا کر رہے ہیں ، جس کی ضرورت نہیںہے ،البتہ تاجر حضرات اور زمیندار اپنا منافع یا آمد نی شرح برقرار رکھے ہو ئے ہیں بلکہ منا فع خور تو مزے میں آگئے ہیں کیو ں کی جس شرح سے حکومت کی جانب سے پڑولیم یا بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو تا ہے مہنگائی فروش اس سے زیا دہ شرح سے اشیاء کی قیمتو ں اضافہ کر دیتے ہیں ، وزیر اعظم کی اس بات ست اتفاق نہیں کیا جا سکتا ہے پو ری دنیا میں مہنگائی کی لہرآئی ہو ئی پا کستان میں جو مہنگائی لہر ہے وہ سب سے زیا دہ توانا ثابت ہو رہی ہے جنو بی ایشیا کے خطے کا سب سے مہنگاترین اگر کوئی ملک ہے تو وہ پاکستا ن ہے ، خطہ کا سب سے کم مہنگا ترین اگر کوئی ملک ہے تو وہ مالدیپ ہے جو جنوبی ایشیا کے عوام میں غیر معروف ملک گر دانا جا تا ہے ، جہا ں مہنگائی کی شرح صرف ایک فی صد ہے ، مہنگائی شرح میں دوسرے نمبر پر سری لنگا کو قرار دیا جا رہا ہے ، بنگلہ دیش کے مقابلے میں بھارت مہنگا ہے تاہم پا کستان کی شرح مہنگائی میں وہ کہیں کم ہے ، ماہر ین معاشیات کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی شرح ڈالر کی خرید وفروخت سے نہیں کی جا سکتی اس کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ عام آدمی کی قوت خرید کو پرکھا جا تا ہے اس وقت پاکستانی عوام کی قوت خرید جو اب دیتی جارہی ہے اور ملک میں مہنگائی کا سلسلہ تھمنے کو نہیں آرہاہے۔ اس وقت مجمو عی طور پر مہنگائی کی شرح پاکستان میں تقریباًسوا پندرہ فی صد سے اوپر ہے ، ایک ہفتے کے دوران گھی ، ٹما ٹر ، آٹا ، آلو ، لہسن اور بیف و مٹن سمیت اٹھائیس چیزوں کی قیمتو ں میں اضافہ ہو اہے دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے غریب عوام کے لیے جب ریلیف کا اعلا ن کیا گیا اس کے بعد سے کم آمد نی والے افراد کے لیے مہنگائی شر ح سولہ اعشاریہ تریالیس فی ہو گئی ہے پہلے پہل عوام کو یہ آس تھی کہ آگے چل کر حالت میں بہتری کی صورت نظر آجائے گی اب یہ امید دم توڑ چکی ہے ، ادھر مسلم لیگ ق کے رہنما ء کا مل آغا نے بھی جتلا لیا ہے کہ ان کی پا رٹی سے حکومت اہم قومی معاملات میں بھی مشورہ نہیں کرتی ، تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی نو ر عالم خان نے بھی پیٹرولیم کی مصنو عات کی قیمتوںمیں اضافے پر کڑی تنقید کر دی ہے ، ان کا کہنا تھا کہ خدارا لو گوں پر تھو ڑا رحم کر یں کیو ں کہ ہمیں (ان کو ) بھی جو اب دینا پڑ تا ہے،یہ بات تو سمجھ میںآتی ہے کہ پی ٹی آئی پہلی مر تبہ اقتدا ر میں آئی ہے لیکن اس میں جو الیکٹیبل عمر ان خان نے شامل کر رکھے ہیں وہ تو مختلف جما عتو ں کے گھا ٹ کا پانی پیئے ہوئے ہیںاقتدار کے رنگ برنگے مزے بھی چکھ رکھے ہیں تو کیا وہ سبھا ؤ کی کوئی تد بیر اجا گر نہیں کر سکتے ،بہر حال صاحب اقتدار کی اولین ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے چلے ، جس میں اولیت حزب اقتدار کو حاصل ہو تی ہے تین سال کا عرصہ بیت گیا یہ تین سال حکومتی پا لیسیوں اور جھمیلوں میں کم نہیںہو اکرتے ، حکومت حزب اختلا ف کو تو درکنا خود ان کے ہم رکاب اتحادی بھی گلہ مند نظر آرہے ہیں ، بہر حال حزب اختلا ف کو خان صاحب جو کچھ بھی سمجھتے ہیں مگر یا د رکھنے کی ایک سچائی یہ بھی ہے کہ حزب اختلا ف بھی عوام کے منتخب نمائند ہ ہیں اور وہ بھی ایک کثیر تعدا د عوام کی نما ئندگی کا حق رکھتے ہیں چنانچہ ملک کے سیا سی استحکا م ، معاشی اور اقتصادی ترقی کے لیے افہا م تفہیم کی پالیسی کو بروکا ر لایا جا ئے اسی میں ریا ست کی مضبوطی ہے حال ہی میں تحریک لبیک پا کستان کی تحریک سے جو جھٹکا لگا، جیسا کہ نقاد کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم جو یہ کہا کر تے ہیں کہ وہ کسی کو بھی این آر او نہیںدیں لیکن انھو ں نے اپنی تقریر میں جن دوخاندانو ں کو نصف دولت واپس لانے کو کہا ہے کیا یہ این آر اور کے زمرے میں نہیں ہے ۔ایسے کئی این آراو وجو د پذیر ہیں ۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''