جدت کی دوڑ میں ثقافت کہیںکھو گئی

اقوام کی ارتقائی منازل اور ترقی میں جدت کو خاص اہمیت حاصل ہے، جن اقوام نے تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کی ہیں انہوں نے جدت کو اپنایا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ قوموں نے اپنی ثقافت اور جدت میں اس طرح تفریق کی کہ جدت کو ترقی کے لیے لازمی تصور کرتے ہوئے اپنے کلچر کو بھی باقی رکھا، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں قدیم عمارتوںکو من و عن باقی رکھا گیا ہے، کیونکہ پرانی عمارتیں اپنے اندر ایک تاریخ سموئے ہوئے ہیں، انہیں دیکھتے ہی پوری تاریخ سامنے آ جاتی ہے۔ ہمارے ایک دوست جو برسوں سے لندن میںمقیم ہیں، انہوںنے بتایا کہ قدیم عمارتوں کے بارے برطانوی حکومت کے بہت سخت قوانین ہیں، ان میں کسی قسم کے رد و بدل کی اجازت نہیں ہے، عمارتوںکے پرائیویٹ مالکان کو اتنی اجازت ہے کہ عمارت کے اندر کوئی تبدیلی کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں تاہم عمارت کے باہر سے اس کی ہیئت تبدیل نہیں کی جا سکتی، نہ ہی عمارت کی بنیادوں کو چھیڑنے کی اجازت دی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ترقی یافتہ اقوام نے اپنی نئی نسل کے لیے ثقافت کی اصل حالت چھوڑنے کے لیے کس قدر اقدامات اٹھائے ہیں۔ آپ امریکہ و یورپ کی یونیورسٹیوں کی عمارتوں کو دیکھ لیجئے وہ پرانے طرز کی عمارتیں پر قائم ہیں مگر ان سے پڑھ کر نکلنے والے طلباء جدید ذہن کے حامل ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ہم نے چونکہ انگریزوںکی نقالی کی ہے تو جدت کے نام پر ہم نے محض ظاہری چیزوں کو لے لیا ہے مگر ترقی کے لیے جو امور لازمی تھے انہیں نظر انداز کر دیا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسلم ممالک میں قدیم عمارتوں کو باقی رکھنے اور مسلمانوں کا قیمتی ورثہ محفوظ رکھنے کی بجائے انہیں منہدم کر کے اس کی جگہ نئی عمارتیں تعمیر کر دی گئی ہیں، جو پرانی عمارتیں باقی ہیں بھی تو اس حال میں کہ کوئی اسے دیکھنا گوارا نہیں کرتا، ہمارے اس بے
اعتنائی سے پوری تاریخ مسخ ہو کر رہ گئی ہے۔ ایک وقت تھا ، بغداد ، اندلس ، قرطبہ ، بیروت علوم کے مرکز تصور کئے جاتے تھے، شاعر مشرق نے اسے یوں بیان کیا کہ جب قرطبہ اور بیروت پوری دنیا کے لوگوں کو علم کی روشنی سے منور کر رہے تھے اس وقت پورا یورپ جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغربی دنیا نے جدت کے نام پر ترقی اور اپنی ثقافت کو الگ الگ رکھا جس کا آغاز انہوں نے تعلیمی اداروں سے کیا جہاں پر نسلِ نو کی ذہن سازی کی جاتی ہے جبکہ ہم نے جدت کے نام پر ایسا راستہ اختیار کیا کہ اپنی ثقافت کو ہی بھول بیٹھے۔
کسی بھی ملک کی ثقافت کا اندازہ لگانا ہو تو وہاں کے بازاروں کا رُخ کریں آپ کو اس ملک کی پوری ثقافت یک جا دیکھنے کو ملے گی، کئی گورے تو ابھی تک اپنی صدیوں پرانی روایت پر قائم ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں، چند ایک مسلم ممالک میں بھی ایسے بازار دیکھنے کو ملتے ہیں، اس میں ترکی کے تاریخی گرینڈ بازار کو سلطنت عثمانیہ کی یاد گار سمجھا جاتا ہے حیران کن بات یہ ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود یہ قدیم طرز کا گرینڈ بازار اب بھی اپنی اصل شکل میں موجود ہے، جہاں پر سلطنت عثمانیہ کی تہذیب کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے،ایران میں بھی کئی قدیم عمارتوں کو ان کی تاریخی حیثیت میں باقی رکھا گیا ہے، ایران کے شہر زنجان میں واقع بازار کو طویل ترین بازار کہا جاتا ہے جو صدیوں پہلے سے قائم ہے، جہاں پر قدیم زمانے کے فن معماری کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے جو بزبان حال مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی داستان بیان کرتا ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اپنی ثقافت کو باقی
رکھنے کے لیے کوئی اقدام نہیں اُٹھایا گیا ہے ، صدیوں پرانی عمارتوں کو جدت کے نام پر گرا کر اُن کی جگہ پر کئی منزلہ نئی بلڈنگ کھڑی کر دی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بازاروں اور عام زندگی میں ثقافت کے مظاہر دیکھنے کی بجائے مختلف ثقافتوں کے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں، ہمیں اپنے بچوں کو ثقافت سے روشناس کرانے کے لیے ثقافتی میلوںکا سہارا لینا پڑتا ہے۔ جہاں پورے ملک سے آرٹسٹوں کو معاوضہ ادا کر کے جمع کیا جاتا ہے جو اپنی خدمات انجام دے کر سیاحوں کو کے ساتھ ساتھ تمام آنے والوں کو ثقافتی رنگوں سے آگاہ کرتے ہیں، ایسے مواقع پر ہمارے بچے ہم سے مختلف اشیاء بارے استفسار کرتے ہیں کہ تو ہم انہیں اپنے کلچر بارے آگاہی فراہم کرتے ہیں اور بچوں کی ناواقفیت پر زیرِ لب ہنستے بھی ہیں کہ انہیں پرانی چیزوں بارے علم نہیں ہے،حکومت جن آرٹسٹوں کو چند روز کے لیے ثقافتی میلے میںلاتی ہے ، ان میںاکثریت حکومت سے شکوہ کناں ہوتی ہے کیونکہ عام دنوں میں حکومت کی طرف سے آرٹسٹوں کی اعانت اور سرپرستی کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا جاتا ہے، اگر حکومت آرٹسٹوں کی قدر کرے اور ان کی بنائی ہوئی اشیاء کو سرکاری سرپرستی میں پوری دنیا کے سامنے پیش کرے تو پھر اسے چند روز کے لیے معاوضہ ادا کر کے آرٹسٹوں کو ثقافتی میلوں میں نہیںلانا پڑے گا کیونکہ جب آرٹسٹ خوشحال ہوتا ہے تو وہ اپنا فن زندہ رکھتا ہے جس سے قوموں کی مجموعی ثقافت زندہ رہتی ہے، ہمیںاپنی نسل نو کی فکر کرنی چاہیے کہ وہ اصل سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ ہمیںیہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اپنی ثقافت پر قائم رہتے ہوئے بھی ہم ترقی کر سکتے ہیں، یہ کام اگرچہ حکومتوں کا ہے تاہم اگر ہر گھر اور ہر ماں باپ یہ ٹھان لے کہ اس نے کم از کم اپنے بچوں کو اپنی روایات، اقدار اور ثقافت سے روشناس کرانا ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ ثقافت کو محفوظ کرنے میں ہم نے اپنے حصے کا کام کر دیا ہے جس کی آبیاری کرنا اگلی نسل کی ذمہ داری ہے۔

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات