امریکی خلائی فورس

شروع میں ” خلائی فورس ” کا ذکر ایک مذاق لگا، بچپن کی کچھ کہانیوں اور ہالی ووڈ کے بعض کرداروں سپیس بالز، سپیس کیڈٹ کی بازگشت بھی محسوس ہوئی۔نیٹ فلیکس کے کامیڈین سٹیو کارل اور ٹوئٹر سمیت دیگر سوشل میڈیا پر پوسٹ ہونے والے تصوراتی کرداروں کے برعکس امریکی سپیس فورس کا قیام ایک سنجیدہ معاملہ ہے، جس کے چمپئن صدر ٹرمپ تھے۔یہ بنیادی طور پر فوجی معاملات زمین کے مدار میں میں نمٹانے کا ایک نیا تصور ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جیمز بانڈ کی فلم” مون ریکر ” کے طرح خلائی فوجی لیزر بلاسٹرز میں خلا کے چکر لگا تے نظر آئیں گے۔اس فورس کا استعمال سٹیلائٹس کے تحفظ کیلئے ہو سکتا ہے ، جوکہ جدید جنگ و جدل کے لیے امریکا جیسے ہائی ٹیکنالوجی ملک اور اس کے ممکنہ مخالفین کی ایک لازمی ضرورت ہے۔
خلائی فورس امریکا کی بہترین پیشہ ورانہ مہارت کے حامل حقیقی سائنس فکشن فوج بننے کے لیے تیار ہے، جس کا چند سال قبل گمان تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس فورس میں بھرتی کی پہلی ویڈیو گزشتہ برس6مئی کو منظر عام پر آئی، حکام کا کہنا ہے کہ انہیں بھرتی کیلئے ان گنت درخواستیں موصول ہوئیں۔
خلائی فورس سے متعلق چند نکات کچھ یوں ہیں، جوکہ بتاتے ہیں کہ کیسے ایک سوچ حقیقت میں تبدیل ہو رہی ہے: خلائی فورس کا قیام 20دسمبر کو عمل میں آیا جسے پنٹاگون کے مطابق 2021ء کے اواخر تک فعال کر دیا جائے گا۔ اس کی ذمہ داریوں میں پیشہ ور خلائی فوجی تیار کرنا، خلائی دفاع کے سسٹم کا حصول اور خلائی طاقت کا ملٹری ڈاکٹرائن موثر بنانا ہے۔ نیشنل ڈیفنس آتھرائزیشن ایکٹ 2020ء میں اس کے لیے چار کروڑ ڈالر مختص کیے گئے۔ نئی فورس کے روح رواں جنرل جان جے ریمنڈ ہیں، جو کہ ملک کے پہلے چیف آف ا سپیس آپریشنز اور خلائی فورس کے اولین رکن ہیں۔ خلائی فورس امریکی فوج کی چھٹی برانچ ہے، اہمیت کے اعتبار سے یہ ایئرفورس، بری فوج، نیوی ، میرین کور اور کوسٹ گارڈز کی طرح ہے۔ ایک بیوروکریٹک تاثر یہ ہے کہ خلائی فورس سیکرٹری آف دی ایئرفورس کے ماتحت ہو گی، جیسے میرینز سیکرٹری آف نیوی کے ماتحت ہیں۔
ابتدائی طور پر بظاہر خلائی فورس کا جھکائو ایئر فورس کی جانب ہے،کیونکہ قبل ازیں یہ ایئر فورس ا سپیس کمانڈ کے طور پر موجود تھی۔ آئندہ چند ماہ میں ایئر فورس کے خلا سے متعلق عملے کو نئی فورس میں ضم کر دیا جائے گا، جنوری میں اس فورس کے ”لوگو” کی رونمائی نے عجیب صورتحال پیدا کر دی ، کہ سابق صدر ٹرمپ نے فورس کا جو ”لوگو” پیش کیا، وہ سٹار ٹریک سیریز فلموں کی فلیٹ کمانڈکے ”لوگو” سے ملتا جلتا تھا۔ ایک بحث خلائی فورس کی یونیفام پر بھی چھڑی۔ امریکی خلائی فورس اس وقت آرمی، ایئر فورس کی یونیفارم استعمال کر رہی ہے، تاکہ نئی ڈیزائنگ اور تیاری کے اخراجات بچائے جا سکیں۔ خلائی فورس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دیگر ہم منصبوں کی طرح ہی دکھائی دیں گے۔
26مارچ کو خلائی فورس نے اپنا پہلا مشن مکمل کیا، جسے پہلا نیشنل سکیورٹی ا سپیس لانچ قرار دیا گیا، جس میں ‘لاک ویڈ مارٹن’ کے تیار کردہ ملٹری کمیونیکیشن سیٹلائٹ مدار میں بھیجے گئے، جو کہ معلومات فراہم کرنیوالے جام پروف سسٹم پر مبنی چھ سیٹلائٹ نیٹ ورک کا حصہ ہے۔ 17مئی کو خلائی فورس نے خفیہ ایکس 37بی خلائی طیارہ مدار میں روانہ کیا، جوکہ ناسا اور فوج کے لیے تجربات کرتا ہے، جس میں بیجوں پر شعاعوں کے اثرات کا مطالعہ شامل ہے۔ ایک سیٹلائٹ شمسی توانائی کو ریڈیو فریکونسی میں تبدیل کرنے پر کام کر رہا ہے جسے سطح زمین پر منتقل کیا جا سکے۔ اپریل میں امریکا کی ایئرفورس اکیڈمی سے گریجویشن کرنیوالی 2020ء کی کلاس میں پہلی بار کچھ افسروں کو براہ راست خلائی فورس میں کمیشن دیا گیا۔ 960گریجویٹس میں سے 86 خلائی فورس کے پہلے کمپنی گریڈ آفیسرز بن گئے۔ جنرل ریمنڈ نے آفیسرز کو بتایا کہ ایئر فورس سپیس کمانڈ سے لگ بھگ 16ہزار فوجی اور سویلین امریکی فوج کی نئی برانچ کے لیے نامزد کیے گئے ہیں۔ اس کے لیے اہل افراد میں وہ آفیسر اور دیگر عملہ شامل ہے جو کہ ا سپیس آپریشنز ، سائبر اسپیس آپریشنز، جیو سپاشل اور سگنل انٹیلی جنس اور ٹارگٹ انالیسز جیسے شعبوں میںکام کر چکے ہیں۔ جنرل ریمنڈ نے اپنے بیان میں کہا ” یہ خلا میں کام کا ایک تاریخی موقع ہے”۔
امریکی فوج میں خلائی فورس کا قیام اس وقت توجہ کا مرکز بنا جب مارچ 2018ء میں صدر ٹرمپ نے میرینز سے خطاب میں ”خلائی فورس” کی اصطلاح استعمال کی اور کہا ”ہم خلا میں بڑے پیمانے پر کام کر رہے ہیں، شاید ہمیں نئی فورس کی ضرورت پڑے جسے ہم خلائی فورس کا نام دیں۔ پہلے میں نے اس بات کو سنجیدگی نہیں لیا، مگر پھر میں نے کہا کہ کیا شاندار آئیڈیا ہے۔ شاید ہمیں ایسا کرنا پڑے گا”۔ تین ماہ بعد صدر ٹرمپ نے واضح کر دیا کہ خلائی فورس قائم کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہیں۔ نائب صدر مائیک پنس کی زیر صدارت نیشنل اسپیس کونسل کے اجلاس میں محکمہ دفاع کو ہدایت کی گئی کہ وہ فوج کی چھٹی برانچ کے قیام پر کام شروع کر دے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا ”خلا میں امریکی موجودگی کافی نہیں ہے، ہم خلا میں امریکا کا غلبہ چاہتے ہیں”۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی