تحریک لبیک کی بحالی

تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے آئندہ پرتشدد احتجاج نہ کرنے کی یقین دہانی کرانے اور آئین و قانون کی پاسداری کی تحریری ضمانت کے بعد وفاقی کابینہ نے سرکولیشن سمری کے ذریعے کالعدم تحریک لبیک کو بحال کر دیا ہے۔ تحریک لبیک پاکستان کی بحالی دراصل اس معاہدے کا حصہ ہے جو چند روز قبل حکومت اور تحریک لبیک کے رہنمائوں کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد طے پایا تھا۔ بحالی کے لیے چونکہ ایک پراسیس ہے جسے پورے کیے بغیر مکمل طور پر بحالی ممکن نہیں ہو سکتی تھی سو گذشتہ چند روز سے اسے پوراکیا جا رہا تھا تاکہ تمام قانونی تقاضوں کو پورا کیا جا سکے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ تحریک لبیک پاکستان الیکشن کمیشن میں بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہے ، اور اسی بنا پر تحریک لبیک نے الیکشن 2018ء میںحصہ لیا تھا اور حیران کن طور پر بائیس لاکھ چونتیس ہزار سے زائد ووٹ حاصل کر کے مجموعی ووٹ حاصل کرنے والی تیسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی، مگر مذہبی پس منظر اور ختم نبوت کے حوالے سے تحریک لبیک نے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے دور میںبڑے احتجاج کیے ، جس سے جلائو گھیرائو اور نظام زندگی مفلوج ہوا تو تحریک انصاف کی حکومت نے اسے کالعدم قرار دے دیا، تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کے لیے تحریک انصاف نے اپوزیشن جماعتوںکو اعتماد میں لے کر فیصلہ کرنے کی بجائے مؤقف اپنایا کہ ریاست کے مفاد کو مدنظر رکھ کر حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ جب تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا تب بھی اہلِ دانش نے اس فیصلے پر اعتراض کیا تھا، اب اگر قومی دھارے میں لانے کے لیے حکومت نے تحریک لبیک کو بحال کر دیا ہے تو اس کی تحسین کی جانی چاہیے کیونکہ بہرصورت تحریک لبیک بھاری ووٹ بینک رکھتی ہے ، اگر ریاستی طاقت کے بل پر انہیںکنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے گی تو حالات خرابی کی طرف جائیں گے ، امید کی جانی چاہیے کہ حالیہ معاہدے کی پاسداری کے لیے دونوں جانب سے خیال رکھا جائے گا اور تحریک لبیک نے پرتشدد احتجاج سمیت جن امور کی تحریری ضمانت دی ہے اس سے اجتناب برتا جائے گا ، یہ راہ عمل ہے اور یہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔
چینی کی آسان دستیابی کی ضرورت
شوگر مافیا کی جانب سے چینی سٹاک کیے جانے کے بعد چینی کی قلت پیدا ہونے سے گراں فروشوں کے وارے نیارے ہو گئے ہیں، چینی عام مارکیٹ میں ناپید ہے، حکومتی نرخوں پر جو چینی دستیاب ہے وہ معیار کے اعتبار سے انتہائی ناقص ہے ، بہت باریک ہونے کی وجہ سے دوگنا استعمال کرنا پڑتی ہے، اس کے برعکس موٹی چینی 140 روپے سے 150روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے۔ جب مارکیٹ سے چینی غائب ہونا شروع ہوئی تو حکومت نے چینی چوروں کے خلاف کریک ڈائون شروع کیا، تاہم حقیقت یہ ہے کہ کریک ڈائون کے باوجود معاملہ سلجھ نہیں سکا ہے۔ البتہ یہ پیش رفت ضرور ہوئی ہے کہ حکومت نے جو چینی درآمد کی تھی وہ صوبوں کو ملنا شروع ہو گئی ہے ، امید ہے کہ چند روز میں چینی کا بحران ختم ہو جائے گا ۔ اطلاعات ہیں کہ پشاور سمیت صوبے کے 19اضلاع کے لیے 10ہزار میٹرک ٹن چینی کے پہنچنے کے بعد چینی کی بوری 320سستی ہو گئی ہے ۔ صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ چینی کی نئی کھیپ ملنے کے بعد چینی کا بحران ختم ہو جائے گا ، کیونکہ 10ہزار میٹرک ٹن کو آئندہ ہفتے 19اضلاع میں تقسیم کیاجائے گا۔ آئندہ ہفتے اگر چینی کی سپلائی ہو گی تو اس کا مطلب ہے کہ بحران مزید ایک ہفتہ سے 10دن تک جاری رہے گا کیونکہ ایک ہفتے کا وقت صوبائی حکومت خود دے رہی ہے۔ اس دوران عوام گراں فروشوں کے رحم و کرم پر رہیں گے اور ان دنوں میں گراں فروش عوام کی جیبوں سے اربوں نکال چکے ہوں گے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ حکومت کی طرف سے کریک ڈائون کے بعد چینی بحران میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ حکومت کو اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کریک ڈاؤن کے باوجود گراں فروشوں کا دھندہ کیسے چل رہا ہے، کیونکہ چند گنے چنے چینی کے ڈیلر ہیں، وہی پورے پاکستان میں چینی کی سپلائی کرتے ہیں، جن کا پورا ڈیٹا حکومت کے پاس موجود ہے۔ ان بڑے ڈیلروں کو پکڑنے کی بجائے اگر سرکاری اہلکار کریانہ سٹور پر چھاپہ مارتے ہیں تو پھر جان لینا چاہیے کہ حکومتی ادارے اور اہلکار فرائض کی انجام دہی میں غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اگر اس طرف توجہ دی جائے تو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ چینی بحران کا خاتمہ بھی ہو گا اور ازراں نرخوں پر دستیابی بھی ممکن ہو سکتی ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ کرایوں میں اضافہ
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں از خود اضافہ کر دیا ہے، گزشتہ دو ماہ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تین بار اضافہ کیا گیا ہے ، یوں دیکھا جائے تو عام شہری سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، کیونکہ ایک طرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے انہیں مہنگائی کا سامنا ہے تو دوسری طرف سفر بھی مہنگا ہو گیا ہے، پٹرول مہنگا ہونے کے سبب کرایوں میں اضافہ یقینی بات ہے مگر از خود اضافہ اور کئی گنا اضافہ سمجھ سے بالاتر ہے، پبلک ٹرانسپورٹ اتھارٹی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو سامنے رکھ کر جلد نئے کرایوں کا اعلان کرے، اور ٹرانسپورٹرز کو پابند بنایا جائے کہ وہ نئے کرائے نامے آویزاں کریں، حکومت کے اس اقدام سے پبلک ٹرانسپورٹرز کو پٹرولیم مصنوعات کو جواز بنا کر کرایوں میں اضافے کا موقع نہیں ملے گا اور عوام بھی اضافی کرایہ ادا کرنے کی اذیت سے بچ جائیں گے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا