پاکستان کو نظرانداز کرناامریکہ کیلئے ناممکن

پاکستان امریکہ کے تعلقات اس وقت تاریخ کے ایک اہم مرحلے پر ہیں۔ روایتی طور پر دونوں ملکوں کے تعلقات اتار چڑھائو کا شکار ہوتے رہتے ہیں لیکن فی الوقت ان تعلقات نہ تو اتار ہے اور نہ ہی چڑھائو ہے، اس وقت تو ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ پاکستان کو نہ صرف نظر انداز کر رہا ہے بلکہ کسی خاطر میں ہی نہیں لا رہا ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو نظر انداز کیا ہی نہیں جا سکتا۔ چونکہ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے افغانستان، روس، چین، بھارت اور ایران کے سنگم پر واقع ہے، اس لئے یہ امریکہ کے لئے ایک اہم ملک رہے گا۔ پھر چین کے ساتھ پاکستان کے گہرے مراسم ہیں جو امریکہ کی اس خطے سے متعلق حکمت عملی پر اثرانداز ہوتے ہیں جبکہ بھارت کے ساتھ پاکستان کی کشیدگی ہے جو چین کے ساتھ تو توازن کے حوالے سے نئی دہلی کی صلاحیت متاثر کرتی ہے۔ اسی طرح افغانستان میں امن کے حوالے سے بھی پاکستان کا کردار اہمیت کا حامل ہے ، درحقیقت پاکستان ہی خطے میں امریکی مفادات کے لئے یا تو معاون بن سکتا ہے یا پھر اس کے لئے پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے ۔ چنانچہ پاکستان کے ساتھ تعلقات امریکہ کے لئے اہم ہیں لیکن اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ ان تعلقات سے اکتاہٹ کا شکار نظر آہا ہے۔ دونوں اطراف مخاصمانہ سیاسی بیان بازی خاص طور پر امریکہ کی طرف سے سامنے آنے والے بیانات تعلقات کے حوالے سے مددگار نہیں ہیں جہاں افغان جنگ کی ناکامی کے باعث پاکستان کے کردار پر پھر سے تنقیدہو رہی ہے۔ اس کے باوجود ایسی بات نہیں ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات بالکل ختم ہورہے ہیں۔ستمبر میں کانگریس کی ایک سماعت کے دوران وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کاکہنا تھا کہ آنے والے وقتوں میں امریکہ صرف اس کردار کو نہیں دیکھے گا جو پاکستان نے گزشتہ20سال میں ادا کیا ہے بلکہ اس کردار کو بھی دیکھے گا جو ہم اسے آنے والے وقت میں ادا کرتا دیکھنا چاہیں گے۔اُن کی اس بات سے ظاہر ہوتا ہے امریکیوں کے ذہن میں طویل اور قلیل مدتی مفادات ہیں۔ طویل مدتی مفاد کے تحت امریکہ کی یہ کوشش ہوگی کہ پاکستان میں چین کے سیاسی اور اقتصادی اثر و رسوخ کو کسی طرح محدود کیا جائے۔ کم از کم و ہ اس بات کو تو ضرور یقینی بنانا چاہے گا کہ پاکستان امریکہ کی ہند بحر الکاہل حکمت عملی کوسبوتاژ نہ کر ے ۔ امریکہ نے صرف طویل مدتی اہداف پر ہی توجہ مرکوز نہیں کر رکھی ہے کیونکہ مستقبل میں امریکہ اور چین کی مخاصمت کے حوالے سے کچھ غیر یقینی صورتحال سے ہے، چنانچہ امریکہ پاکستان کی علاقائی پالیسیوں میں ابہام اور معاشی حالت بہتر بنانے میں عزم کے فقدان اور واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں اعتماد کا ماحول پیدا کرنے میں اس کی عدم دلچسپی کو بھی دیکھ رہا ہے۔ چین کے ساتھ امریکہ کے مخاصمانہ تعلقات پاکستان کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں لیکن حوصلہ افزاء امر یہ ہے کہ چین اور امریکا دونوں دنیا کو یقین دلا رہے ہیں کہ وہ کوئی محاذ آرائی نہیں چاہتے۔ COP26میں اپنی شرکت کے بعد پریس بریفنگ میں امریکی صدر جو بائیڈن چین سے متعلق ایسی اشتعال انگیزبیان بازی سے گریز کیا جیسی وہ پہلے کرتے رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی نظام کسی دائمی تنائو کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس سے جنگ کاخطرہ بڑھ جاتا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایٹمی دور میں بڑی طاقتوں کے درمیان جنگ بہت سی وجوہات کی بناء پر ناقابل تصور ہے ،ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ چونکہ باہمی معاشی انحصاربہت زیادہ ہے جو جنگ کی صورت خطرے میں پڑ سکتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ چین اور امریکہ آخرکار ایک مستحکم توازن اور ایک منظم اسٹریٹجک مسابقت پر مبنی معاملات طے کرنے جا رہے ہیں، جسے مسابقتی بقائے باہمی اور اپنا اپنا دائرہ اثر بھی کہا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا امریکہ اس مسابقتی عمل میں چین کو نیچا دکھانے کے لئے اس کے اتحادی ممالک کے لئے مشکلات پیدا کرے گا یا پھر انہیں کسی متباد ل کی پیشکش کر ے ۔اگر وہ متبادل پیش کرنے کاراستہ اختیارکرتا ہے تو اس کا مطلب پاکستان کے بارے میں امریکہ کا رویہ لچکدار ہوگا لیکن ا س میں وقت لگے گا۔تاہم امریکہ کی قلیل مدتی ترجیحات بھی ہیں جن کے لیے پاکستان کے ساتھ محدود تعلقات ضروری ہیں، وہ افغانستان کے استحکام میں پاکستان کے کردار اور وہاں دہشت گردی سے نمٹنے میں مدد میں دلچسپی رکھتا ہے کیونکہ اس کے لیے پاکستان کا عسکری اور انٹیلی جنس تعاون اہم ہے۔ امریکہ پاکستان سے یہ بھی چاہے گا کہ وہ اسلامک سٹیٹ خوراسان جیسی تنظیموں کو کمزور کرنے میں افغان طالبان کا تعاون دلوائے کیونکہ طالبان کے پاس خود ایسا کرنے کے حوالے سے عزم اور صلاحیت کا فقدان ہو سکتا ہے، امریکی یہ بھی چاہتے ہیں کہ آپریشنز ان کے اپنے ہوں جن کے لیے انہیں پاکستان سے مواصلاتی فضائی راستے درکار ہیں۔اسی طرح معاشی طور پر کمزور ہونے اور بیرونی طاقتوں پر انحصار، انتہا پسندی اور ناقص گورننس کی وجہ سے سماجی اقتصادی بے اطمینانی کے چیلنجزکے باعث ممکنہ عدم استحکام سے نبردآزما ہونے کی وجہ سے پاکستان کے پالیسی کے اختیارات محدود ہیں۔ جیسے جیسے دونوں ممالک اپنے تعلقات کو ٹھیک کرنے کے لیے آگے بڑھیں گے، انہیں کچھ غیر یقینی صورتحال بھی درپیش آئے گی جس میں نہ صرف واشنگٹن بلکہ اسلام آباد اور کابل کی پالیسیوں کا بھی عمل دخل ہوگا۔
بشکریہ،ڈان، ترجمہ: راشد عباسی

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا