سیاسی مد وجزر

قومی اسمبلی میں دو بلوں پررائے شماری میں حکومت کی شکست اور حزب اختلاف کے رکن کے پیش کردہ بل کو حکومتی مخالفت کے باوجود مطلوبہ حمایت کے حصول کے بعد ایوان میں حکومت کی حمایت کا توازن موافق نہیں لگتا حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ملتوی کیا جانا بھی بے سبب نہیں گو کہ حکومتی ذرائع اس عمل کواتفاق رائے کی ایک مزید سعی قرار دے رہے ہیں تاہم سابقہ روایات اور حکومتی طرزعمل میں اگر اس طرح کی مثال موجود ہوتی تو اس سے اتفاق ممکن تھا مگر حکومت نے عددی اکثریت کے بل بوتے پر کبھی بھی حزب اختلاف کو ایوان میں اہمیت نہ دی اب جبکہ جن پتوں پر تکیہ تھے جب وہی ہوا دینے لگ گئے ہیں تو ایسا کرنا مجبوری تھی حکومت کو اگر دوسری مرتبہ بھی اس طرح کی شکست کا سامنا کرنا پڑتا تو اسے ایوان میں اعتماد کھو دینے سے تعبیر کیا جاتا ۔حفیظ شیخ کے معاملے میں ایسا ہونے کے بعد وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینا پڑا تھا لیکن اب معروضی حالات میں ایسا بھی آسان دکھائی نہیں دیتا۔ اتحادی جماعتوں کی جانب سے معترض ہونے کے بعد اب معاملات پہلے کی طرح نہیں رہے ۔ حکومت علاوہ ازیں بھی صدارتی آرڈیننس کا ہی سہارا لیتی رہی ہے حالانکہ جس مفاہمت کا اب حکومت کو ہوش آیا ہے اگر یہی کام سوا تین سال پہلے ہی کیا ہوتا تو حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان خلیج اس قدر وسیع نہ ہوتی پارلیمان کا ماحول بھی بہتر ہوتا اور قانون سازی کے عمل میں رکاوٹیں نہ ہوتیں نتیجتاً آرڈیننسز کے اجراء کی نوبت ہی نہ آتی دوسری جانب مشکل امر یہ ہے کہ خود حزب اختلاف کی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ اخلاص کے ساتھ چلنے پرتیار نہیں۔ گومگو کی اس کیفیت سے عوام کو بھی اس امر کی سمجھ نہیں آتی کہ آخر حزب ا ختلاف کی جماعتیں چاہتی کیا ہیں وہ نہ تو یکسو ہوکر حکومت کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں اور نہ ہی خود ان کی صفوں میں اتحاد و اتفاق کی کوئی صورت نظر آتی ہے ایسا لگتا ہے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتیں قومی امور اور عوامی مسائل پر پالیسی سازی میں حقیقی طور پر مزاحم کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ویسے بھی موجودہ حکومت کی ناکامی اور داخلی و خارجی خطرات خراب حکمرانی کا تسلسل ہیں۔ پاکستان کی معاشی تباہی اور طرز حکمرانی کے بحران کی جڑ امریکی اور عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی ہے۔ ان کلیدی مسائل پر حکمرانی کی دوڑ میں شامل جماعتیں حقیقی مزاحمت نظر نہیں آتیں ۔لیکن حالیہ دنوں میں بعض سرگرمیوں سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود کسی نہ کسی حد تک مفاہمت اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے پراتفاق کر چکی ہیں علاوہ ازیں حکومتی اتحادی بھی نالاں ہیں پارلیمان کے اجلاس کے التوا کی وجوہات پر حکومت، اتحادیوں اور اپوزیشن کے موقف میں واضح تضاد نظر آ رہا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات پر منانے کی ایک کوشش اور کر رہی ہے جبکہ حکومت کی اتحادی جماعتوں نے تصدیق کی ہے کہ یہ اجلاس حکومت نے ان کے تحفظات کی وجہ سے ملتوی کیا ہے۔اپوزیشن جماعتیں یہ الزام عائد کرتی ہیں کہ کہ متنازع انتخابی اصلاحات کے بل کو تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے جلد بازی میں پارلیمان سے پاس کروانے کا واحد مقصد اگلے عام انتخابات میں ”منظم دھاندلی”کی راہ ہموار کرنا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے ملتوی ہونے والے ایک مشترکہ اجلاس سے قبل اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ ہم مل کر پارلیمان کے اندر بھرپور کردار ادا کریں گے اور حکومتی سازش کو روکنے کے لیے تمام قانونی اور سیاسی اقدام اٹھائیں گے۔دوسری جانب حکومتی وزرا یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ اس مجوزہ بل میں شامل شقیں جیسا کہ بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلوانااور آئندہ عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال وغیرہ درحقیقت ملک میں انتخابی عمل کو شفاف بنانے کی غرض سے ہیں اورشفافیت پر مبنی یہی اقدامات اپوزیشن کو پریشان کیے ہوئے ہیں۔یہ عوامل اور تحفظات ایسے نہیں جن پر مفاہمت نہ ہوسکے۔انتخابی اصلاحات کے بل اور آئندہ عام انتحابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے بارے میں الیکشن کمیشن نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایسا کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرنا ضروری ہے لیکن حکومت سادہ اکثریت سے اس بل کو پارلیمنٹ سے منظور کروا کر اس پر عمل درآمد کرنے پر بضد ہے۔الیکشن کمیشن نے اپنے تحفظات میں ان یورپی ملکوں کا بھی ذکر کیا تھا جہاں پر الیکٹرانک ووٹنگ کا استعمال اس مشین پر اٹھنے والے اعتراضات کی وجہ سے روک دیا گیا ہے۔ ان ملکوں میں جرمنی’ ہالینڈ’ اٹلی’ فرانس اور آئرلینڈ شامل ہیں۔ان تمام عوامل کے جائزے کے بعد اس نتیجے پر پہنچنا فطری امر ہے کہ اہم قانون سازی میں پوری طرح مشاورت ہونی چاہئے اور تمام تر تحفظات خواہ وہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے آئیں اتحادیوں کی طرف سے ہوں یا الیکشن کمیشن کے نکات ہوں سبھی پر سیر حاصل بحث اور پور ی طرح غور وحوض کے بعد قانون سازی کی جائے اس ضمن میں تعداد پوری کرنے اور عددی اکثریت ثابت کرنے یا اسے غلط ثابت کرنے پر زور دینے کی بجائے اصلاحات کے پہلو کو فوقیت دی جائے اور متفقہ قانون سازی ہو۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے