یوم فتح

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قومی اسمبلی میں آنے والے آذربائیجان کے خصوصی وفد کو خوش آمدید کہتے ہوئے اپنے خطاب میں انہیں نکورنو کارا باخ کی فتح پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم آذربائیجان کے وفد کا خیر مقدم کرتے ہیں، آذربائیجان نے ہمیشہ عالمی فورمز پر پاکستان کے مؤقف کی تائید کی ہے، ہم آج ان کی فتح کا دن منا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آذربائیجان کے عوام اس بات سے آگاہ ہیں کہ پاکستان کے عوام نے ہمیشہ ان کے مؤقف کی حمایت کی ہے، ہم آذربائیجان کو یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ انہوں نے آذربائیجان کی طرف سے پاکستان اور کشمیر کے حوالے سے غیر متزلزل حمایت پر شکریہ بھی ادا کیا۔
پاکستان اور برادر اسلامی ملک آذربائیجان کے درمیان کئی قدریں مشترک ہیں، جس طرح پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے اسی طرح آذربائیجان کو نکورنو کارا باغ کے مسئلے کا سامنا ہے جو تین دہائیوں کے بعد بھی حل طلب ہے، جس طرح بھارت کشمیر کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کئے ہوئے ہے اسی طرح آرمینیا بھی نکورنو کارا باغ کے مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہا ہے، کشمیر کی طرح نکورنو کارا باغ کو انٹرنیشنل سطح پر آذربائیجان کا حصہ قرار دیا گیا ہے، مگر آرمینیا اس اسے غاصبانہ طور پر ہتھیانا چاہتا ہے ان تمام تر حقائق کے باوجود پاکستان کی طرح آذربائیجان چاہتا ہے کہ اس مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کیا جائے، آذربائیجان گزشتہ تیس برسوں سے مذاکرات کا خواہاں ہے اور آرمینیا کے ساتھ مذاکرات کے کئی ادوار بھی ہو چکے ہیں مگر ہر کچھ عرصے کے بعد آرمینیا طاقت کے زور پر آذربائیجان کے علاقے کو ہڑپنے کی کوشش کرتا ہے، آرمینیا نے 2016ء میں آذربائیجان کے دیگر علاقوں پر
قبضہ کرنا چاہا، دونوں ممالک کے درمیان چار روزہ جنگ ہوئی جس میں آرمینیا کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، تاہم آرمینیا اپنی حرکت سے باز نہ آیا اور 2018ء میں اس نے آذربائیجان پر جنگ مسلط کر دی، آرمینین فوج نے مقبوضہ علاقوں میں تباہی مچائی، حتیٰ کہ تاریخی اور مذہبی مقامات کو بھی نقصان پہنچایا، اس دوران دس لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے اور سینکٹروں لوگوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا،17 اکتوبر 2020 ء کو آرمینین فوج نے تمام بین الااقوامی و انسانی حقوق کے قوانین اور اصولوں کی خلاف ورزی کرکے آذربائیجان کے گانجا شہر پر میزائلوں سے حملہ کیا، سویلین لوگوں کو نشانہ بنایا جس میں بچوں اور خواتین سمیت متعدد افراد شہید اورسینکٹروں افراد زخمی ہوئے تھے، تاہم آذری افواج نے اس جنگ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، منہ توڑ جواب دیا، نہ صرف آرمینین فوجوں کو پیچھے دھکیلا بلکہ قبضہ کئے گئے علاقے بھی چھڑا لئے ، 2020ء میں آرمینیا کی طرف سے جنگ کی پیش قدمی پر دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوا، جو چوالیس روز تک جاری رہا، آذربائیجان کی فوج نے آرمینین فوج کے جارحیت کا بروقت اور بھر پور جواب دیا، اگرچہ جنگ میں سینکڑوں لوگوں کی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، تاہم اس کا اختتام آذربائیجان کی فتح پر ہوا، جس کا اعلان صدر الہام علیوف نے ان الفاظ میں کیا کہ ” آرمینیا کی جانب سے دس نومبر کو قبول کردہ شکست کو ہر سال ”یوم فتح” کے طور پر منائیں گے” جبکہ 27 ستمبر کو آذربائیجان کی فوج کی جانب سے اپنے علاقے کو بچانے کے لئے کیے گئے آپریشن کے
آغاز کے دن کو شہدا کے لئے ”یادگاری دن” کے طور پر بھی منانے کا اعلان کیا گیا۔ یاد رہے آرمینیا نے آذربائیجان کی فوج کے 44 روزہ آپریشن کے دوران 5 شہروں کے مراکز ، 4 شہروں اور 286 دیہاتوں کی آزادی کے بعد شکست تسلیم کی تھی۔آرمینیا نے 10 نومبر کو اس معاہدے پر دستخط کیے ، جس میں وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ مقبوضہ ادم ، لاچین اور کیل باجر صوبوں کو خالی کردیں گے۔ یوں عالمی قوتوں کی مداخلت اور تعاون سے جنگ بندی ہو گئی کیونکہ آرمینین فوج کے پاس جنگ بندی کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہں بچا تھا۔ جنگ میں فتح کا ایک سال مکمل ہونے پر آذربائیجان میں اس دن کو ریاستی سطح پر منایا گیا ہے، ایسے موقع پر آذربائیجان کا خصوصی وفد پاکستان آیا، کیونکہ دو طرفہ مثالی تعلقات کی بنا پر پاکستان نے گزشتہ سال کی جنگ میں آذربائیجان کا ہر لحاظ سے ساتھ دیا تھا۔ آذربائیجان کے لوگ اور سیاسی قیادت تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان پہلا ملک تھا جس نے اپنی پارلیمان میں آرمینیا کی جانب سے آذربائیجان پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف نہ صرف آواز بلند کی بلکہ قرار داد مذمت منظور کی، پاکستان نے آذربائیجان کی منصفانہ جدوجہد میں ہمیشہ تعاون کیا ہے۔ پاکستان کی حمایت سے اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں آذربائیجان کی پہلی قرارداد منظور ہوئی۔ پاکستان کی حمایت کے بعد ہی دیگر قراردادیں منظور ہوتی رہیں، یوں پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان گہرے تاریخی، ثقافتی اور مذہبی رشتے ہیں۔ جو وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط تر ہو رہے ہیں، خطے کی بدلتی صورتحال کے پیش نظر پاکستان کے آذربائیجان کے ساتھ خوشگوار تعلقات معاشی مسائل سے نکلنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، کیونکہ دوطرفہ تجارت کے مواقع موجود ہیں، آذربائیجان میں تیل و گیس کے وسیع ذخائر ہیں جن سے پاکستان فائدہ اٹھا کر پیٹرولیم مصنوعات کے مسائل پر قابو پا کر پاکستانی مصنوعات کو عالمی منڈیوں تک پہنچا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات