آئی ایم ایف کی سخت شرائط پوری کرنے کی تیاری

وزیراعظم عمران خان کے مشیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو پیشگی مکمل کرنے والے اقدامات کی ایک فہرست مکمل کرنے کو دی ہے تا کہ وہ پاکستان کے حوالے سے بورڈ اجلاس بلا سکیں۔ ان پیشگی اقدامات میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ترمیمی)بل’ ٹیکس استثنیٰ ختم کرنا اور توانائی کے نرخوں میں اضافہ کرنا بھی شامل ہے ۔شوکت ترین نے گردشی قرضوں میں ملوث پبلک سیکٹر اداروں سے بھی کہا تھا کہ وہ اپنے کھاتوں پر وصولیوں کی بنیاد پر منافع کا اعلان کریں حکومت اپنا منافع کا حصہ ادائیگیاں کرنے میں لگادے گی۔اس سے گردشی قرضوں میں2 کھرب روپے تک کی کمی آئے گی اور اداروں کی بیلنس شیٹ کلیئر ہوگی جس کی بنیاد پر حکومت بین الاقوامی مارکیٹ میں گلوبل ڈپازٹری رسیدوں(جی ڈی آرز)میں اضافہ کرے گی کروڑوں روپے مالیت کے وفاقی اور صوبائی حکومت کے اداروں کے متعدد اکائونٹس کی خزانے کے ایک ہی اکائونٹ میں منتقلی بھی آئی ایم ایف پروگرام کی شرط تھی ۔ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لئے مشیر خزانہ نے جن نئے اقدامات کا عندیہ دیا ہے اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ سب کچھ آئی ایم ایف کی شرائط کی نذر کرنے کے بعد رہی سہی کسر بھی پوری کر دی جائے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ بھی وقتی نذرانہ ہو گاجس کے پیش کرنے کے بعد قرضہ تو حاصل ہوگا مگر اس کے باوجود ہماری ضروریات پوری نہیں ہوں گی اور نہ ہی معیشت کوسہاراملے گا بلکہ ملک مزید قرضوں کے بوجھ میں دب جائے گا اور سود سمیت قرضوں کے قسط کی واپسی کے لئے اور تگ و دو کرنی پڑے گی۔ آئی ایم ایف سے ان کی سخت شرائط پر قرضے لیکر ملک چلانے کی مجبوری نے ان کی شرائط پرعملدرآمد کرتے کرتے اب یہ وقت بھی آگیا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لئے سب کچھ نچوڑ کر آخری قطرہ بھی آئی ایم ایف کے منہ میں ٹپکایا جائے اب تک سامنے آنے والی شرائط اور تفصیلات ہی ہوشربا ہیں مشکل امر یہ ہے کہ سمجھوتے کو ممکن بنانے کے لئے مزید کڑی شرائط تسلیم کرنا ہوں گی جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے بجلی ٹیرف ‘پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اضافہ کرنے کے باوجود آئی ایم ایف اسٹاف اب بھی میکرو اکنامک فریم ورک سے مطمئن نہیں۔معاہدہ مزید سخت شرائط تسلیم کرکے ہوا تو قومی معیشت اور عام آدمی کی بدحالی کہاں تک پہنچنے گی اس کا اندازہ شرائط سامنے آنے سے پہلے نہیں لگایا جاسکتا لیکن اگر مزید شرائط کے بغیر معاہدہ ہوگیا تب بھی جن شرائط کو نافذ کیا جاچکا ہے ان ہی کے نتائج عام آدمی کو زندہ درگور کرنے کے لئے کافی ہوں گے ذرائع کا یہ انتباہ نہایت قابل توجہ ہے کہ مفاہمت کے لئے غیرمعمولی طور پر محتاط مہارت کی ضرورت ہے کیونکہ غلط یا ناقابل عمل اعدادوشمار کے نتیجے میں آئی ایم ایف پروگرام معطل ہوسکتا ہے۔آئی ایم ایف کی محتاجی فی الواقع ایسی مشکل ہے جس سے جلد از جلد نجات حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش قومی مفاد کا ناگزیر تقاضا ہے۔ اس کے لئے غیرروایتی معاشی حکمت عملی کا اختیار کیا جانا ضروری ہے۔ قوم کی اجتماعی دانش سے استفادہ کیا جائے تو صورت حال کا قابل عمل حل تلاش کرلیا جانا عین ممکن ہے لہٰذا حکومت کو اس سمت میں کسی مزید تاخیر کے بغیرپیش رفت کرنی چاہئے۔پٹرول کی قیمتوں کا اپنی بلند ترین سطح سے بھی آگے جانے کے رجحانات اور بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کا مطالبہ اسی بات کا نتیجہ ہے کہ ماضی کی حکومتیں جو قرضے لیتی رہیں بد قسمتی سے بعد میں آنے والے لوگ ان کی واپسی نہیں کرسکے اور جوں جوں آئی ایم ایف سے لئے جانے والے قرضوں کی مالیت بڑھ رہی ہے اس کی شرائط بھی اسی قدر بڑھ رہی ہیں۔ آج آئی ایم ایف سمیت پاکستان پر قرضوں کی مالیت بھی 39ہزار ارب روپے سے متجاوز ہو چکی ہے۔ قرضے لینا موجودہ عالمی معاشی نظام کا ایک جزو ہے ان کا اصراف تعمیری اور سرمایہ کاری کی حد تک ہونا تو ٹھیک ہے مزید برآں بعض ترقی یافتہ ممالک بھی ایک دوسرے کے مقروض ہیں تاہم پاکستان اپنے ذمہ واجب الادا قرضے واپس نہ کرنے کی وجہ سے ایک ایسی دلدل میں پھنسا ہوا ہے کہ اب اس سے نکلنے ہی کی کوئی تدبیر کرنی پڑے گی۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''