ای وی ایم کا مرحلہ وار استعمال

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جن 33 بلوں کی منظوری دی گئی ہے ان میں ایک الیکٹرانک ووٹنگ مشین بل کی منظوری بھی شامل ہے، اپوزیشن جماعتوں نے اگرچہ حکومت کی مخالفت کی تھی مگر حکومت کو ووٹوں کی برتری حاصل ہونے کی بنا پر بل منظور ہو گیا، اگلے انتخابات میں ای وی ایم استعال ہوں یا نہیں اس حوالے سے الیکشن کمیشن کی تیاری نہیں ہے،اس کا وہ بار بار اظہار بھی کر رہا ہے مگر حکومت مصر ہے کہ اگلے انتخابات ای وی ایم کے مطابق کرائے جائیں، اس ضمن میں الیکشن کمیشن کے تحفظات کو دور کیا جانا اس لئے ضروری ہے کہ ملک میں انتخابات کرانے کی ذمہ داری اس کی ہے، جوحکمران جماعت کی خواہش کی بجائے تمام سیاسی جماعتوں اور کروڑوں ووٹرز کو جواب دہ ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال پر الیکشن کمیشن آف پاکستان اور اپوزیشن جماعتیں تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں، الیکشن کمیشن نے اڑتیس اعتراضات لگائے تھے جنہیں دور نہیں کیا گیا ہے۔ آئندہ عام انتخابات کے لیے ملک میں ساڑھے 11 کروڑ سے زائد ووٹرز کے لیے ایک لاکھ 90 ہزار سے زائد الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں (ای وی ایم) درکار ہوں گی۔ انتخابات کو شفاف بنانے اور ووٹرز کو سہولت فراہم کرنے کیلئے ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے مگر یہ اقدام عجلت بازی میں نہ اٹھایا جائے تو بہتر ہوگا،الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو پورے ملک کے انتخابات کیلئے استعمال سے پہلے نچلی سطح پر استعمال کر کے اس کے نتائج معلوم کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے،بلدیاتی انتخابات یا صوبائی سطح پر ای وی ایم کو استعمال کرنے کے بعد اندازہ ہو جائے گا کہ پورے ملک میں اس کا استعمال مفید رہے گا یا نہیں؟ کیونکہ اس مقصد کیلئے ہمیں بڑے بجٹ کی ضرورت ہو گی، بھارت نے ڈیڑھ کروڑ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر 2019ء میں 126 ارب پاکستانی روپوں کے برابر پیسہ خرچ کیا، دو ہزار 23 میں پاکستان کو کتنے پیسے خرچ کرنے ہوں گے اس حوالے سے غور ہونا چاہئے، ہندوستان میں،ایک ای وی ایم زیادہ سے زیادہ 64 امیدواروں کے 3,840 ووٹ ریکارڈ کر سکتی ہے، ایک بیلٹنگ یونٹ میں 16 امیدواروں کے لیے انتظام ہے اور زیادہ سے زیادہ 4 یونٹس کو جوڑا جا سکتا ہے۔ اگر امیدواروں کی تعداد 64 سے زیادہ ہو تو پولنگ کا روایتی بیلٹ بکس کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں آئندہ عام انتخابات میں الیکٹرانک مشینوں کااستعمال کرنا ہے تو حکومت کو لاکھوں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں (EVMs) درکار ہوں گی۔ بھارت میں اب تک تقریباً 107 ریاستوں کے انتخابات اور تین پارلیمانی انتخابات ای وی ایم کا استعمال کرتے ہوئے کرائے جا چکے ہیں جس میں ووٹنگ مشین انٹرنیٹ سے منسلک نہیں تھی۔ 33 ممالک الیکٹرانک ووٹنگ کی کسی نہ کسی شکل کا استعمال کرتے ہیں ان میں سے کچھ نے ای وی ایم کی ساکھ پرسوالیہ نشان لگایا ہے۔ الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں ایک جامع رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جو 18ماہ تک پڑی رہی اوراس پرکوئی غور نہیں کیا گیا،الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے دونوں ایوانوں کوخطوط بھی بھیجے تھے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے قابل استعمال نہ ہونے بارے میںالیکشن کمیشن کے جو تحفظات سامنے آئے اس میں الیکشن کمیشن نے ای وی ایم کے استعمال کیلئے 150 ارب سے زائد اخراجات کو فضول ایکسرسائز قرار دیا کہ ایک مشین کا خرچہ 2 لاکھ روپے ہے اور اس کیلئے 2 سے3 لاکھ آئی ٹی ماہرین کی ضرورت پڑے گی۔ 2023ء کے انتخابات کیلئے8لاکھ مشینیں منگوانا پڑیں گی،مشین کی چپ گم ہو جانے سے نتائج تبدیل ہونے کا بھی خدشہ ہے جبکہ مشینوں کوحلقوں تک پہنچانے کیلئے ہیلی کاپٹروں کی ضرورت ہوگی ،مشین پر غلط ووٹ کاسٹ ہونے پر دوبارہ ووٹ کاسٹ کرنے کی سہولت نہیں ملے گی ،مشینوں کو بہ حفاظت پہنچانا اور واپس لانا بڑا چیلنج ہو گا۔ ای وی ایم حکومت نے خود نہیں بنائی، نجی کمپنی سے بنی ہے جو دیگر کمپنیوں کی مشینوں سے انتہائی کم محفوظ ہے، یہ مشین جدید ٹیکنالوجی سے لیس نہیں، 2018ء کے عام انتخابات میں 20 سے 25 ارب اخراجات آئے، ای وی ایم کے استعمال کیلئے لمبے عرصے تک بڑی تعداد میں افراد کو ٹریننگ کی ضرورت ہو گی،ای وی ایم کے ہر بوتھ پر استعمال کیلئے الگ مین پاور کی ضرورت ہو گی۔ ہر پولنگ بوتھ پر پریذائیڈنگ افسران اور سٹاف کو مکمل ٹرینڈ کرنا مشکل مرحلہ ہے،ہر پولنگ سٹیشن پر 2 سے 3 آئی ٹی کے افراد تعینات کرنا ہوں گے،گزشتہ الیکشن میں 86 ہزار پولنگ سٹیشن بنے، آئندہ الیکشن میں 1 لاکھ پولنگ سٹیشن ہونے کا امکان ہے،کم سے کم 2 سے تین لاکھ آئی ٹی ماہرین کی ضرورت پڑے گی۔ گزشتہ الیکشن میں پولنگ بوتھ 2 لاکھ 40 ہزار تھے جبکہ آئندہ الیکشن میں 3 لاکھ ہونے کا امکان ہے۔ ہر پولنگ بوتھ پر قومی اور صوبائی اسمبلی کیلئے الگ الگ مشین رکھنا پڑے گی، حلقہ میں 20 امیدواروں کے زیادہ ہونے سے ایک الگ مشین رکھنا پڑے گی، انتخابات میں تقریبا آدھے حلقوں میں 20 سے زیادہ امیدوار سامنے آتے، ایسی صورت میں کم سے کم ایک لاکھ اضافی مشینیں خریدنا پڑیں گی، مشینوں کے اچانک خراب ہونے کے خطرے کے پیش نظر ایک لاکھ ایکسٹرا مشینیں لینا ہوں گی،کم سے کم 8 لاکھ ای وی ایم مشینیں خریدنا ہوں گی، ایک مشین کی لاگت ڈیڑھ سے 2 لاکھ روپے آئے گی۔ اتنی بڑی تعداد میں ای وی ایم مشینوں کو کہاں رکھا جائے گا، ڈیٹا سنٹر ہی موجود نہیں، ڈیٹا سنٹر کے قیام اور مشینوں کو سنبھالنے پر اربوں روپے سالانہ اخراجات آئیں گے، ای وی ایم مشینوں کو ہر جگہ پہنچانے کیلئے ٹرانسپورٹیشن چارجز الگ آئیں گے، انڈیا میں ای وی ایم کمپنیوں کے پاس اپنے ہیلی کاپٹرز موجود ہیں۔ ٹیکنالوجی میں جدت آنے سے موجود ہ مشین 2028ء کے الیکشن میں دوبارہ استعمال نہیں ہو سکیں گی، ان حقائق کے بعد ضروری ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال مرحلہ وار ہو تاکہ بڑے نقصان سے بچا جا سکے۔

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش