سیالکوٹ واقعے کو مذہبی رنگ دینے سے گریز کی ضرورت

سیالکوٹ میں پیش آنے والے سری لنکن شہری کے بہیمانہ قتل کی مذمت میں علماء کرام نے آواز بلند کی ہے ، مفتی تقی عثمانی نے کہا ہے کہ کسی پر توہین رسالت کا الزام عائد کر کے از خود اسے سزا دینے کا کوئی جواز نہیں ہے، سیالکوٹ واقعہ نے بھونڈی تصویر دکھا کر ملک و ملت کو بدنام کیا ہے۔ اسی طرح مولانا طارق جمیل نے کہا ہے کہ علماء انتہا پسندی کو روکیں ، غیر ملکی کو زندہ جلانے کا واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے، جب کہ مفتی منیب الرحمان نے بھی اس واقعے کی بھرپور مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ تحقیقات سے پہلے کسی کو ذمہ دار نہ ٹھہرائیں۔
امر واقعہ ہے کہ سیالکوٹ واقعہ چند لوگوں کا انفرادی فعل ہے ، اب تک جو حقائق سامنے آئے ہیں، اس سے واضح ہو گیا ہے کہ فیکٹری ملازمین نے ذاتی رنجش کے تحت یہ اقدام اٹھایا، مگر واقعے کے بعد اسے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی ، سو علماء کی طرف سے بروقت اس کی مذمت سے اس امر کا تعین ہو گیا ہے کہ وہ ختم نبوت قانون کی آڑ میں کسی کو بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کے حق میں نہیں ہیں۔
اسی طرح کچھ عرصہ قبل سکیورٹی پر مامور اہلکار نے خوشاب میں بینک منیجر کو قتل کر کے اسے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی تھی، گارڈ نے نعرے لگاتے ہوئے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ اس نے توہین رسالت کے مرتکب کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ہے۔ اس دوران کئی ناسمجھ لوگ بغیر تحقیق کے اسے بوسہ دیتے دکھائی دیے، تاہم بعد ازاں معلوم ہوا کہ گارڈ نے قتل کے بعد ڈرامہ رچایا تھا تاکہ وہ قانون کی گرفت سے بچ سکے۔ سیالکوٹ واقعے میںملوث افراد بھی حلیئے سے مذہبی دکھائی نہیں دیتے ہیں، سو اسے مذہبی رنگ دینے کی بجائے اسے بعض لوگوں کا ذاتی فعل قرار دینا چاہیے اور اس سے کوئی اور رعایت نہیں کی جانی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی بھی مذہب کی آڑ میں کسی انسان پر تشدد یا اس کی جان لینے کی جرأت نہ کر سکے۔
وزیراعلیٰ کی کھیلوں کے فروغ میں دلچسپی
غیر نصابی سرگرمیاں طلباء اور نوجوانوں کے انتہائی افادیت کی حامل ہوتی ہے۔ یہ نہ صرف اُن کی صحت کو برقرار رکھنے ، اُن کے اندر مقابلے کی صلاحیت پیدا کرتی ہیں بلکہ اُنہیں غیر اخلاقی سرگرمیوں اور فضولیات سے بھی محفوظ رکھتی ہیں۔ گو کہ تمام سیاسی جماعتوں کا نوجوانوں کے لیے غیر نصابی سرگرمیوں کے فروغ پر اتفاق پایا جاتا ہے، لیکن ہمارے کھیل کے میدانوں کے فقدان ، فنڈز کی عدم فراہمی اور حکومتی سطح پرعدم توجہی کے باعث غیر نصابی سرگرمیوں کے فروغ پر زیادہ توجہ نہیں دی جاسکی۔ اس وجہ سے نوجوانوں کے غیر صحتمندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ وہ نوجوان جنہوں نے مستقبل ملک و قوم کی ڈور تھامنے اور اس کی تعمیر وترقی میں اہم کردار ادا کرنا ہوتاہے ، وہ حالات کا مقابلہ کرنے اور مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا کرنے کی صلاحیت کے حامل نہیں ہوتے اور اکثر معمولی سا مسئلہ درپیش ہونے پر ہمت ہار جاتے اور اس سے نمٹنے کی کوشش ترک کر دیتے ہیں۔ تاہم اب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کھیلوں کے فروغ کیلئے صوبے میں 7ارب روپے کے منصوبے جاری ہیں جن میں نئے گرائونڈز کی تعمیر، سٹیڈیم کی اپ گریڈیشن اور 13ہاکی آسٹروٹرف بچھانے کے منصوبے شامل ہیں۔ وزیر اعظم کو دی جانے والی بریفنگ میں محمود خان کا کہنا تھا کہ 1250کھلاڑیوں کو وظائف کی فراہمی کے علاوہ ٹیلنٹ ہنٹ اور دیگر پروگرام کے انعقاد کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ وزیر اعلیٰ کی اس خصوصی دلچسپی کے باعث خیبرپختونخوا میں کھیلوں کی سرگرمیاں فروغ پائیں گی اور وسائل کی فراہمی کے بعد کھیل اور کھلاڑیوں سے متعلق مسائل بھی حل ہو سکیں گے۔
بلدیاتی انتخابات میں EVMsکا استعمال
بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے خبریں گرم ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے وقت، انتخابات بارے پائے جانے والے اختلافات سمیت مختلف پہلو زیر بحث ہیں۔ ہر سیاسی جماعت اور سیاسی رہنماء مختلف زاویوں سے اس پر بحث کرتا دکھائی جاتا ہے۔ اب الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بلدیاتی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو آزمانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ عام انتخابات کے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انعقاد پر مختلف سیاسی جماعتوں کے سخت تحفظات پائے جاتے ہیں، بعض سیاسی رہنمائوں کی جانب سے تو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کے اعلان کو قبل از انتخابات دھاندلی سے متشابہہ قرار دیا گیا اور چند ایک نے تحفظات دور کرنے کے بعد اس بارے سوچنے پر رضامندی ظاہری کی ہے۔ بلدیاتی انتخابات چونکہ نچلی سطح کے اور مقامی طور پر منعقد ہونے والے انتخابات ہیں، اس لیے ان انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال ایک تجربہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر یہ تجربہ کامیاب ثابت ہوتا ہے اور اس کے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں تو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے عام انتخابات میں استعمال پر بھی تحفظات دور ہو جائیں گے۔ اور اس سے سیاسی جماعتوں کے خدشات دور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں