قرآنی واقعات

قرآنی واقعات اور قصص نبویہ پر ان کے اثرات

قرآن مجید کی تعلیمات کا ایک بہت بڑا حصہ قصوں پر مشتمل ہے۔ یہاں تک کہ تقریباً ایک چوتھائی قرآن مجید واقعاتی طرز بیان پر محیط ہے۔
واقعاتی اندازِ دعوت کا ظہور قرآن مجید کے نزول کے ابتدائی دور میں مکہ مکرمہ میں ہی ہو گیا تھا۔ لہٰذا اس طرز بیان نے دین کے بنیادی قواعد اور دین کی علامت کی وضاحت میں بھرپور حصہ لیا۔ قرآنی قصوں کے بارے میں خود حق تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں:
ترجمہ:”(اے پیغمبر) ہم اس قرآن کے ذریعے سے جو ہم نے تمہاری طرف بھیجا ہے تمہیں ایک نہایت اچھا قصہ سناتے ہیں اور تم اس سے پہلے بے خبر تھے۔”(سورة یوسف:٣)


قصوں کے ذکر کرنے کا مقصد حق تعالیٰ نے یوں آشکار فرمایا:
”تو(ان سے) یہ قصہ بیان کردو تاکہ وہ فکرکریں۔” (سورة الاعراف:١٧٦)


ایک اور جگہ فرمایا:
ترجمہ:”یہ (قرآن) ایسی بات نہیں ہے جو (اپنے دل سے) بنائی گئی ہو بلکہ جو (کتابیں) اس سے پہلے (نازل ہوئی) ہیں ان کی تصدیق (کرنے والا) ہے اور ہر چیز کی تفصیل (کرنے والا) اور مومنوں کے لیے ہدایت و رحمت ہے۔” (سورة یوسف: ١١١)


قرآن حکیم کی دعوت کی مبادیات میں اسلوب قصہ کی طرف متوجہ ہوا ہے’ کیونکہ یہ اسلوب بندوں کی رہنمائی جیسے اعلیٰ مقصود کا حامل ہے ‘ اور عربی شخص کی قصوں میں رغبت اور ان سے لطف اندوز ہونے کی تو بات ہی کیا ہے۔
اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
ترجمہ:”اور لوگوں میں بعض ایسا ہے جو بیہودہ حکایتیں خریدتا ہے تاکہ (لوگوں کو) بے سمجھے خدا کے رستے سے گمراہ کرے اور اس سے استہزا کرے۔”
اس آیت کی تفسیر میں علامہ زمخشری نے ایک واقعہ نقل کیا ہے:
”نضر بن حارث عجمی گزشتہ لوگوں کی کتابیں خرید کر قریش کو ان کے واقعات سنایا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ : ‘محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تمہیں عاد و ثمود کے قصے سناتے ہیں’ میں تمہیں رستم’ بہرام’ ایران اور حیرہ کے قصے سناتا ہوں۔” اسی وجہ سے قرآن مجید میں واقعاتی طرز بیان کو خاص اہمیت اور بہت سی جگہ دی گئی اور مکہ میں قرآن کے نزول کی ابتداء کے ساتھ ہی قصوں کا ظہور شروع ہو گیا

تاکہ اس اسلوب کو بنیادی اور قواعد اسلام کی تاسیس میں حصہ مل سکے۔ قرآن مجید کا واقعاتی اندازِ دعوت کو استعمال کرنا ہر اس شخص کی اس بات پر حوصلہ افزائی کرتا ہے. جو قرآن کے ساتھ اپنا تعلق جوڑتا ہے کہ وہ اپنی دعوت میں ان قصوں کو استعمال کرکے ان سے رہنمائی حاصل کر سکے ۔

قرآنی قصہ جات کو اپنی دعوت میں استعمال کرنا داعی اول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآنی قصوں سے لطف اندوز ہوتے اور ان میں لذت و سرور محسوس فرماتے۔ جیسا کہ موسیٰ و خضر علیہما السلام کے قصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”میری خواہش ہے کہ موسیٰ علیہ السلام صبر کرتے تاکہ اللہ تعالیٰ مزید ہمیں ان کے حالات سے آگاہ فرماتے”۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآنی قصہ جات سے متاثر ہونا محض ایک بلا فائدہ تاثر نہ تھا کہ جس میں سوائے لذت و لطف اندوزی کے کچھ نہ ہو’ بلکہ اس تاثر کا اثر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دو اعتبار سے ظاہر ہوا۔

(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان فرمودہ سبق آموز واقعات)