تاب نظارہ نہیں آئینہ کیا دیکھنے دوں

حالات کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں ‘ کبھی ڈھونڈنے سے کالم کے لئے موضوع دستیاب نہیں ہوتا ‘کیونکہ اخبارات کے صفحات خبروں سے بھرے پڑے ہوتے ہیں مگر خوف فساد موضوعات کی وجہ سے کسی بھی خبر پرلکھنے کی ہمت نہیں پڑتی ‘ وہی حالات کاتقاضا آڑے آرہا ہوتا ہے اور کبھی یوں ہوتا ہے کہ موضوعات کا ایسا جمعہ بازار سجا ہوتا ہے کہ کرشمہ دامن دل میکشد کہ جا این جاست والی کیفیت ہوتی ہے ‘ گزشتہ روز لکھنے کا ازن ملا تو ہاتھوں میں دم تھی مگر ہاتھ میں جنبش نہ ہونے کی کیفیت سے دو چار والی صورتحال تھی آج جب یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں ‘موضوعات ایک سے بڑھ کرایک ‘اچھوتے اور دعوت نظارہ دیتے ہوئے بقول مومن خان مومن
تاب نظارہ نہیں آئینہ کیا دیکھنے دوں
اور بن جائیں گے تصویر جوحیراں ہوگے
توصورتحال کچھ یوں بن رہی ہے کہ بھان متی نے کنبہ جوڑنے کے لئے جومحنت کی تھی اس میں ”دراڑیں” پڑنے کی اطلاعات اب واضح ہوتی دکھائی دے رہی ہیں ‘ اور جس مقدس نام پر نئی ریاست بنانے کے دعوے کئے جارہے تھے ‘ کئی تجزیہ نگاروں اور صحافیوں نے اس نام کے تقدس سے باز آنے کی درخواستیں کی تھیں ‘اب س کے نتائج سامنے آرہے ہیں ‘ کیونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ کفرکی ریاست تو چل سکتی ہے مگر ظلم کی نہیں ‘ اصل ریاست مدینہ میں تو خلیفہ اول کی اسلامی طریقہ انتخاب یعنی بیعت کے ذریعے تقرری کے اگلی صبح جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی دکان پر رزق حلال کمانے کے لئے تشریف لے جارہے تھے توحضرت عمر راستے میں ملے اور پوچھا ‘ حضرت کہاں؟ فرمایا ‘رزق کمانے ‘ دونوں کے درمیان گفتگو تاریخ کاحصہ اور اسلامی ریاست کا روشن باب ہے’ نتیجہ جس کا یہ نکلا کہ آپ کی دکان چلے گی تو دیگر تاجران بازار کی طرف کوئی توجہ نہیں دے گا ‘ اور آپ کے لئے بیت المال سے روزینہ مقرر کیا جائیگا ‘ لیکن کھنڈت یہ آن پڑی کہ ایک عام دیہاڑی دار مزدور سے زیادہ روزینہ لینے کا میں خود کو مکلف نہیں سمجھتا ‘ مگر دیہاڑی دار کی مزدوری میں گزارہ ممکن نہیں تھا تو ان مزدوروں کے روزینہ میں اضافے کا حکم دے کر خود کے لئے بھی اتناہی مقرر فرمایا۔ یہ تھی ریاست مدینہ ‘ مگر اسی ریاست کے نام پر جو کچھ ”نئی ریاست مدینہ” میں ہو رہا ہے ‘ اس کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں ‘ بات کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے ‘ اس لئے اب بھانت بھانت کی اینٹوں سے جوڑے جانے والے کنبے کا حشر یہ ہو رہا ہے کہ گزشتہ روز ایک اجلاس میں جو صورتحال سامنے آئی اس پر حیرت کا اظہار کیوں کر کیا جائے کہ اس طرح تو ہوتا ہے ‘ اس طرح کے کاموں میں ‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے محولہ قول کے دوسرے حصے کوغور سے دیکھا جائے تو ”ریاست مدینہ” کے کرتوت واضح ہو کر سامنے آرہے ہیں ‘ عوام پر مہنگائی اور دیگر کئی قسم کے جو پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور ابھی مزید توڑے جانے ہیں ‘ مگر حیرت سے تک رہا ہے جہاں”وفا” مجھے وہ ہر وزیر مشیر الٹا دعوے کرنے پر”مجبور” ہے ، یعنی
رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آسان ہو گئیں
مہنگائی پر اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوال اگر”ہاتھ ہولا رکھنے” سے بھی تعبیر کئے جائیں تو اسے کیا کیا جائے کہ خود سرکاری حلقوں میں بھی تشویش کی لہر پیدا ہو چکی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ہم اپنے حلقوں میں جا کر عوام کے سوالات کا سامنا کرنے کی”جرأت” سے عاری ہیں ‘ وزیر دفاع نے اس موقع پر جوسوال اٹھائے ‘ ان پر ہم بھی مختلف اوقات میں لاتعداد کالم تحریر کر چکے ہیں ‘ سوال جائز بھی تھا اور جواب طلب بھی ‘ وزیر موصوف نے استفسار کیا کہ بجلی بھی ہم اپنی ضرورت سے زیادہ پیداکرتے ہیں ‘ گیس بھی ضرورت سے دگنی مقدار میں ہم دے رہے ہیں ‘ مگر نہ ہمیں بجلی دی جاتی ہے نہ گیس(اب تو ولی فیلڈ سے مزید گیس ملنے کی خبریں آچکی ہیں) تو بھلا ہم اپنے حلقوں میں عوام کا سامنا کیوں کر کر سکتے ہیں ۔ بات بڑھ گئی اور خبروں کی مطابق جہاں ایک طرف نور عالم خان نے بھی وزیر د فاع کے موقف کا ساتھ دیا’ وہاں وزیر توانائی نے بیچ میں پڑنے کی کوشش کی یعنی محاورةً دخل درنامعقولات” کرکے وزیر دفاع کو روکنا چاہا تو انہیں ”ڈانٹتے ہوئے” وزیر دفاع نے شٹ اپ کال دی اور کہا میں وزیر اعظم سے بات کر رہا ہوں ‘ تم خاموش رہو ‘ اس پر معاملہ بڑھ گیا اور دو بڑے ا جلاس چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔ بجلی کی قیمت میں فی یونٹ چار روپے تیس پیسے اضافہ نومبر کے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ میں کرنے کاحکم دے دیا گیا ہے ‘ ملکی تاریخ میں پہلی بار پٹرول 150 روپے ہونے کے امکانات ظاہر کئے جارہے ہیں ‘ جبکہ گورنر خیبر پختونخوا نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر مہنگائی صرف پاکستان میں ہوتی تو اپوزیشن کا مارچ جائز ہوتا ‘ اس سوال پر مگر یہ سوال بھی تو اٹھتا ہے کہ حضور جب خود آپ لوگ طویل دھرنے کے دوران بجلی ‘ پٹرول ‘ گیس وغیرہ کے نرخوں میں اضافے پر نہ صرف شدید تنقید کرتے تھے اور بجلی کے بل پھاڑ کر عوام کو سول نافرمانی کی کالز دیتے تھے تب کیا آپ کا رویہ درست تھا اور آپ کا دھرنا صحیح تھا؟ خیر جانے دیں اس قسم کے سوال اٹھانا بہت سے ماتھوں پرشکنیں ڈال دینے کا باعث ہیں اس لئے ہم اپنا سوال واپس لیتے ہیں ‘ مگر اتنی گزارش ضرور کرنے دیجئے ‘ کہ خدارا اپنی صفوں میں پڑنے والی دراڑوں کا علاج کسی” محبت بھری ایلفی”سے ضرور کیجئے’ تاکہ آنے والے دنوں میں آپ کو کسی مشکل سیاسی صورتحال سے دوچار نہ ہونا پڑے ۔ بقول داغ دہلوی
ادھر تو کوئی نہیں جس سے آپ ہیں مصروف
ادھر کودیکھئے ہم عرص حال کرتے ہیں

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار