سانحہ مری منصوبہ بندی

سانحہ مری ۔۔ کس نے کیا سیکھا؟

ہم بحیثیت قوم منصوبہ بندی کے تو عادی ہی نہیں بس منہ اٹھاکے کچھ بھی کر گزرنے کی ہماری عادت برسوں پرانی ہے اور بارہا اپنی اس عادت پر ہمیں ندامت اٹھانی پڑی تاہم مجال ہے کہ ہم نے کسی ایک سے بھی معذرت کی ہو یا اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس بری عادت کو بدلنے کی کوشش بھی کی ہو۔ہم وہ ہیں جوچند آنے چینی مہنگی ہونے پر آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں اور غیر جمہوری خودساختہ حکمران کے زیر سایہ گیارہ برس چپ چاپ گزار دیتے ہیں ۔ دو روپے بجلی مہنگی ہونے پربھرے مجمع میںاور سرراہے بل جلادیتے ہیں اور بیسیوں روپے کے بڑھنے پر گزاراکرنے کی تلقین کرتے ہوئے صبر شکر کرنے والے بھی ہم ہی ہیں۔ بظاہر ہم کہتے ہیں کہ ہماری سوچ اجتماعی سوچ ہے جبکہ اندر سے ہم کبھی بھی ایک قوم کی طرح نہ سوچ سکے اور نہ ہی عمل کرسکے ، سیکھنے سیکھانے کی تو ہماری عادت ہی نہیں۔ بڑے بڑے حادثے ہوچکے یہاںتک کہ ملک کے دو ٹکڑے ہوچکے لیکن بھئی وہی ” مرغ کی ایک ٹانگ ” ہم نے کبھی بھی کسی بھی حادثے سے کچھ نہ سیکھنے کی ٹھان رکھی ہے یوں آدھی صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی ایک کے بعد ایک حادثے سے گزرے ، ہر دوسرا حادثہ پہلے سے زیادہ خطر ناک اور ہولناک رہا، سیکنڑوں نہیں ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں مگر اس سے سیکھا کبھی نہیں۔
اس ملک میں کبھی بھی کسی چیز کی قلت ہوسکتی ہے اس کی وجہ یہ نہیں کہ لوگوںکی قوت خرید ختم ہوگئی بلکہ ہمارے حکمرانوں اور بیوروکریسی کی نااہلی ہے ناقص منصوبہ بندی ہے ۔ ابھی حال ہی میں ملک عزیز میں پیٹرول کی بندش ہوگئی تھی کیونکہ وقت پر منگوایا ہی نہیں گیا پھر سارے ملک کے عوام سڑکوں پر رل گئے۔ بھئی آپ اتنے ہی ذہین لوگ ہیں تو حادثہ یا سانحہ ہونے سے پہلے اس طرح چیخ چیخ کر حکومت ، بیوروکریسی یا کم از کم غریب عوام کو ہی بتادیںکہ وہ حکومت پر ہی نہ رہیں اور اپنا خود بندوبست کرلیں۔ حکومت والے تو ہر دور میں نااہل ہی ہوتے ہیں کیونکہ اپوزیشن والے تو یہی کہتے ہیں تو پھر اپوزیشن والے اعلیٰ دماغ کہاں ہوتے ہیں کیونکہ وہ پہلے سے نہیں بتادیتے اور پھر اپنے سیاست چمکانے آجاتے ہیں، اس پر حکومت والے کہتے ہیں کہ خدارا قومی معاملات پر اورقومی سانحہ پر سیاست نہ کی جائے اور مل جل کر ایک قوم بن کر کام کیا جائے تو پھر سانحہ سے پہلے یہ قومیت کہاں گھاس چرنے گئی ہوتی ہے کیونکہ قومی معاملات پر پہلے سے صلاح مشورہ کرلیا جاتا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہمارے ٹیکس کی کمائی سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں یہ ساراساراسال کیا کرتے رہتے ہیں وہ کیوں نہیں بحث کرتے جس سے عوام کے مسائل حل ہوں، اس طرح کے حادثات سے بچا جاسکے اور کوئی بھی سانحہ ہونے ہی نہ دیا جائے۔
جب ایک وفاقی وزیر اپنے ٹویٹ میں اس بات پر اترارہاہے کہ مری میں سیر کے لئے سیاحوں کا رش دیدنی ہے اور عوام خوشحال ہیں اسی لئے تو سیر و تفریح کے لئے پیسہ نکال کر مری کی سیر کو نکلے ہیں ، اب اس وزیر کا کام ہی یہ تھا کہ وہ حکومت کی کارکردگی لوگوں کو دکھائے اور خوش ہولیکن دوسرے طرف انہی کی حکومت کے دیگر وزراء کہ جن کا کام مری جیسے چھوٹے سے علاقہ میں نہ صرف ٹریفک کو سنبھالنا ہے بلکہ لوگوں کو دیگر سہولیات بھی دینی ہے جن میں رہائش، کھانا اور ایندھن وغیرہ شامل ہے ۔ لوگ تو سیر وتفریح کے لئے آپ کے اکسانے پر نکل آئے لیکن حکومتی مشینری ٹویٹ پر جشن مناتے رہ گئے اور ہزاروں خاندان متاثر ہوئے یا جان بوجھ کر انہیںسڑکوں پر رات گزار نے پر مجبور کیا گیا اورپھر درجنوں لوگوںبیوی بچوں سمیت کھلے آسمان کے تلے منوں برف کے نیچے بے یار و مددگار زندگی کی بازی ہار گئے۔
مری کے حادثے سے سب کو سیکھنا ہوگا، عوام کو بھی اور حکومت اور اس کی مشینری کو بھی تاکہ اس طرح کے حادثات سے آئندہ کے لئے بچاجاسکے۔ حکومت کو پورے انتظامات کرنے ہوں گے کہ لوگوں کو آنے والے موسمی حالات سے پوری طرح باخبر رکھا جاسکے عوام کو ایسے مقامات پر جانے سے پہلے پوری طرح کی احتیاطی تدابیر کے بارے میں پوری آگاہی دی جائے مقامی لوگوں کو اس طرح کے حالات میں کس طرح سیاحوں کی مدد کرنی ہے اور اگر اس پر مقامی لوگوں کا کچھ خرچ ہورہاہے تو وہ کیسے حکومت یا پھر انہی لوگوں سے بعد میں وصول کرسکتے ہیں۔ ٹریفک بڑھ جانے کی صورت میں مقامی انتظامیہ کو کیا کرنا ہے ۔ اگر مقامی انتظامیہ اپنے وسائل سے اس طرح کی صورتحال سے پوری طرح نہیں نبردآزماہوسکتی تو وہ کیسے وفاقی اداروں کو فوری اور بروقت اطلاع دے سکیں اور یوں حادثات کے وقوع پزیر ہونے سے پہلے ہی ان پر خاطر خواہ قابو پایا جاسکے۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے