سینئر ہونا

سینئر ہونا

سینئرہونا ،یا سینئر ہوجانا عام طور پر ایک خوشگوار احساس ہی ہوتا ہے لیکن میرے خیال میں یہ روح کو قید کردینے کے مترادف ہے ۔میں بچپن ہی سے سینئر ہونے سے ڈرتا تھا لیکن جس طرح ہم جوانی کو کسی ریموٹ سے Still نہیں کرسکتے اور خودبخود بڑھاپے کی طرف لڑھکتے جاتے ہیں اس طرح ہر کسی کو ایک نہ ایک دن سینئر ہونے کا مزہ ضرور چکھنا پڑتا ہے۔سینئر ہونے کی نسبت جونیئر ہونا ایک سہل اورخوشگوار احساس ہوتا ہے ۔ بے غمی ،بے پرواہی ،غیرسنجیدگی جیسی بہت سی ایسی صفات سے کہ جن سے بندہ صرف جونیر ہوتے ہوئے ہی محظوظ ہوسکتا ہے ، سینئر ہونے پر قطعاًان سہولیات سے مستفید نہیں ہوسکتا یعنی یہ پرتعیش کیفیات سینئر ہونے پر انسان کو نصیب نہیں ہوتیں۔جونیئرہونے کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ اس میں غلطی کی گنجائش بہت ہوتی ہے ،میرا مطلب ہے کہ غلطی ہوجانے پر یہ جواز بہت سی بلاؤں کا ٹال دیتا ہے کہ ”بچہ ہے ابھی ،سیکھ لے گا”۔اس قسم کے بہت سے جملے جونیئر کو غلطی کرنے سے باز نہیں آنے دیتے اور بندہ ایک غلطی کرکے دوسری غلطی کرنے کی ”کوشش”کرسکتا ہے ،انسان یوں بھی غلطیوں کا پتلاکہلایا جاتا ہے ،دراصل غلطی سینئر کوزیب جو نہیں دیتی ،تجربہ بھی کوئی چیز ہے اب تجربے کی توہین کیسے کی جائے ۔جونیئر ہونے کے ناطے تجربہ (Experience)نہ ہونے کی وجہ سے اپنے پروفیشن کے حوالے سے تجربے (Experiment)کرنے کی کافی گنجائش ہوتی ہے ۔ اکثر لوگوں کو آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ اپنے پروفیشن میں سینئر ہونے کے باوجود بھی اس پروفیشن میں فٹ نہیں ہوتے لیکن سینئر ہونے کی تہمت ان پر ایسی لگی ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے حوالے سے کوئی تجربہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔جیسے آپ نے بہت سے پولیس والے دیکھے ہوں گے جو بہت ملنسار اور خوش اخلاق بھی ہوتے ہیں ،لیکن اس کے باوجود بھی وہ اسی پروفیشن میں اپنی پوری زندگی گزاردیتے ہیں کیونکہ وہ سینئر ہوچکے ہوتے ہیں اس لیے اپنے پروفیشن کی تبدیلی کے بارے میں کوئی تجربہ نہیں کرپاتے۔لیکن ایک جونیئر کو جب یہ احساس ہوجائے کہ جو کام وہ کررہاہے وہ اس کے مزاج کے خلاف ہے سو وہ اسی وقت فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے کہ اپنا کیریر کسی اور شعبے میں آزمانے کی کوشش کرے۔جونیر ہونے میں ایک دلیری کا پہلو بھی پوشیدہ ہے ۔دلیری اس طرح کہ جونیئر وہ فیصلے بھی کرسکتا ہے کہ جو سینئر کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آتے۔وقت کے ساتھ ساتھ بندہ آگہی حاصل کرتاہے، اور آگہی بجائے خود ایک عذاب سے کم نہیں ۔سینئر ہوتے ہوتے بندہ بہت سے قوانین سیکھ لیتا ہے کہ یہ کروتو یہ ہوجائے گا وہ کرو تو وہ ہوجائے گایوں بندہ کسی جوگا نہیں رہتا کہ جہاں دلیری کے جوہر دکھانے کی گنجائش موجود بھی ہو تو بندہ یونہی ڈرا ڈرا سا رہتا ہے جبکہ جونیر کو چونکہ کسی قسم کے معاملات کا پتہ ہی نہیں ہوتا تو جو اس کے دل میں آئے کرگزرتا ہے ۔ایک سینئر سرجن نے ذمہ داری قبول کی اور اس جراح کے مطب گیا اور اس کی بڑی تعریف کی کہ آپ کے آپریشن بڑے کامیاب ہوتے ہیں ،اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اناٹومی سکھاسکتا ہوں ،یوں آپ کے آپریشن میں مزید بہتری آجائے گی۔جراح اس سرجن کی باتوں میںآگیا اور اس سے اناٹومی سیکھنے لگا۔سرجن نے اسے سکھایا کہ انسانی جسم کی کون کون سی رگیں اگر کٹ جائیں تو انسانی موت واقع ہوسکتی ہے۔جراح جوں جوں اناٹومی سیکھتا گیا اس کی جراحی میں تذبذب آتا گیا اور یوں وہ جراح جراحی کرنے کے قابل نہ رہا کیونکہ کہ اس عمل میں اس کا خوف آڑے آتا رہا کہ مبادا کوئی ایسی رگ نہ کٹ جائے کہ کسی کی جان نہ چلی جائے ۔یوں اس جراح نے جراحی ہی سے توبہ کرلی۔ سینیئر بھی چونکہ زندگی کی ”اناٹومی”سے واقف ہوچکا ہوتاہے اس لیے اسے بھی کسی بھی ”جراحی ”کے عمل میں ”رگِ جاں”کے کٹ جانے کا خوف لاحق ہوتاہے،اس لیے وہ اپنی زندگی کے ان ناسوروں کو تلف کرنے کی جرات نہیں کرپاتا کہ جو اسے ایک مسلسل کرب کا شکار رکھتے ہیں اور وہ سینیئر اسی درد کے ساتھ بقیہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔جونیر ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی قسم کی ذمہ داری کا احساس بندے کو نہیں ہوتا ۔کام اچھا ہویا براچل جاتا ہے ۔سینیئر ہونا دراصل ایک ایسے احساس کا نام ہے کہ جو انسان کے دل و دماغ پر طاری رہتا ہے۔ حالانکہ سینئر ہوکر بھی بندہ انسان ہی رہتا ہے پھر بھی سینئر ہونے کی خوامخواہ قسم کی سنجیدگی چہرے پر طاری کرنی پڑتی ہے۔جونیرز کو اپنی سیٹ کی اہمیت دکھانے کایہ ایک بہترین طریقہ ہوتا ہے۔دفتر میں ہونے والی ہر تبدیلی پر سینئرکے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ اپنے ماضی کی گٹھری سے کوئی نہ کوئی بہادری یاپروفیشنلزم کا زبردست واقعہ سنائے ،حالانکہ وہ بہادری کے واقعات اسی سینئر نے اس وقت کیے ہوتے تھے کہ جب وہ جونئیر تھا۔سینئر ہوکر بندہ مصنوعی ہوجاتا ہے جبکہ جونیئر نیچرل انداز میں زندگی گزارتا ہے۔یعنی جو اس کا دل چاہے پہنتا ہے ،جو دل کرے کھاتا ہے ،جیسے مرضی اپنی زندگی گزارتا ہے لیکن سینئر بیچارے کو ایک خاص قسم کی ڈھلے ڈھلائے انداز کی ،خودساختہ روٹین زندگی گزارنی پڑتی ہے ۔اس کا دل چاہے بھی تو جینز نہیں پہن سکتا ،اس کا دل چاہے بھی تو جوان کولیگز کے ساتھ قہقہے نہیں لگاسکتا ،چاہنے کے باوجود دفتر میں کسی کے ساتھ مذاق نہیں کرسکتا ۔ ترقی پاکر سینئر ہوجانے پرہم عموماًلوگوں سے مباکبادیں وصول کرتے ہیں۔مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں ۔حالانکہ اس میں مٹھائی تقسیم کرنے کی کوئی بات ہوتی نہیں ہوتی،تنخواہ میں چند سو ہزارروپے اضافے کے علاوہ سینئر ہونے میں سیاپے ہی سیاپے ہیں۔یہ باتیں جونیئر ہونے پر کوئی نہیں سمجھتا ۔جونیئر تو بس یہی چاہتا ہے کہ سینئر ہوجائے لیکن سینئر کبھی کبھی چاہتا ہے کہ وہ جونیئر ہوجائے لیکن وقت سے کون کہے یار ذرا آہستہ ۔اگر خود سینئر ہیں تو میری ان باتوں پر تھوڑی دیر کے لیے سوچئے گااور اگر جونیئر ہیں تو کسی ایسے سینئر کو ضرور اسی نقطہ سے دیکھئے گا جو مکمل طور پر ”سینئر ”ہوچکا ہو۔

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت