مہنگائی کا سیلاب

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے؟

جینوسائیڈ واچ کے بانی اور ڈائریکٹر گریگوری اسٹینٹن نے خبردار کیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی ہونے والی ہے ‘ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق گریگری اسٹینٹن نے امریکی کانگریس کی بریفنگ کے دوران کہا کہ بھارت کی ریاست آسام اور مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کے ابتدائی علامات اور عمل موجود ہیں ‘ انہوں نے خبردار کیا کہ بھارت میں بڑے پیمانے پر نسل کشی ہو سکتی ہے ‘ نسل کشی کوئی واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک عمل ہے ‘ اور2017ء کے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پالیسیوں اور روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار کی حکومت کی امتیازی پالیسیوں میں مماثلت ہے ‘ انہوں نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور غیر مقامی افراد کو جائیداد بنانے کی پالیسی کا تذکرہ کیا’ مسٹر گریگوری نے 2019ء میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی خود مختار حیثیت کی منسوخی اور اسی سال شہریت ترمیمی ایکٹ کے تحت مسلمانوں کے علاوہ مذہبی اقلیتوں کو شہریت دینے کا تذکرہ کیا ‘ ورجینیا کی جارج میسن یونیورسٹی میں نسل کشی کے مطالعہ اور روک تھام کے لیکچرر گریگوری سٹینٹن نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ایسا ہی کیاجائے گا جیسا میانمار میں روہنگیا کو پہلے قانونی طور پر غیر شہری قرار دیا گیا اورپھر تشدد اور نسل کشی کے ذریعے نکال دیا گیا۔ جہاں تک بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا تعلق ہے تو یہ سلسلہ گزشتہ سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جاری و ساری ہے مختلف حیلوں بہانوں سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اگرچہ عیسائیوں اور سکھوں کے خلاف بھی مختلف مواقع پرنسل کشی کے واقعات بھارتی تاریخ کاایک شرمناک باب ہے ‘ تاہم سب سے زیادہ نسل کشی کے واقعات مسلمانوں کے خلاف ہی ریکارڈ پرہیں ‘ بھارتی انتہا پسندوں نے کبھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جو مسلمانوں کی نسل کشی اور قتل عام کے حوالے سے انہیں میسر رہا ہے ‘ بلکہ مختلف حیلوں بہانوں سے ہندوتوا کے پیروکار خود ہی ایسے مواقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ بھارتی پردھان منتری نریندرمودی کو اس حوالے سے خصوصی حیثیت حاصل ہے جنہوںنے پہلے گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے گجرات کے مسلمانوں پرعرصہ حیات تنگ کئے رکھا ‘ اور ان کی انہی مکروہ پالیسیوں کی وجہ سے ہندو انتہا پسندوں نے انہیں وزارت عظمیٰ کی کرسی پر لابٹھایا تو ان کے اندرکاسفاک انتہا پسند پوری قوت سے سرگرم ہو گیا اور پورے بھارت میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جانے لگا ‘ ایک جانب انہوں نے آسام اور ملحقہ علاقوں کے مسلمانوں کی شہریت پر سوال اٹھاتے ہوئے انہیں شہریت سے محروم کیا تو دوسری جانب کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے بھارتی شہریوں کو کشمیر میں غیر قانونی طور پر جائیدادیں خریدنے کی اجازت دی اور وہاں ایک عرصے سے مسلمانوں کے خلاف مظالم ڈھائے جانے کی خبریں سامنے آرہی ہیں ‘ جبکہ اب عالمی سطح پر اس بات کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں کہ میانمار کی طرز پر جہاں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کیا گیااور انہیں ملک بدر کرکے بنگلہ دیش میں دھکیل دیا گیا ‘ اب بھارتی مسلمانوں کے خلاف بھی نسل کشی کے ”منصوبے” بن رہے ہیں ‘ جویقینا عالمی برادری کی توجہ چاہتے ہیں ۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کو فوری طورپر سلامتی کونسل کا اجلاس بلوا کراس سنگین صورتحال کا نوٹس لینا چاہئے ‘ ایسا نہ ہو کہ بھارتی انتہا پسند مسلمانوں کی نسل کشی شروع کرکے ایک اور المیہ جنم دینے میں کامیاب ہوجائیں ‘ آج اگر مغربی دنیا ہولوکاسٹ کو ہر سال یاد کرکے یہودیوں کے خلاف نازی جرمنی کے ہٹلر کو نفرت انگیز القابات سے یاد کرتی ہے تو موجودہ دور کے سفاک مودی کے ہاتھ روکنے میںاپنا کردار ادا کرے ۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''