نجی سکولوں میں بھی نماز ظہر کا اہتمام کروایا جائے

خیبر پختونخوا کے تمام سرکاری سکولوں میں نماز ظہر کے اہتمام کی پرانی روایت بحال کرتے ہوئے محکمہ ابتدائی تعلیم نے صوبہ بھر کے ایجوکیشن افسران کو ٹائم ٹیبل میں مقامی وقت کے مطابق ظہر کی نماز کے لئے گنجائش رکھنے کی ہدایت کر دی ہے ۔واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں طویل عرصہ تک ہائی اور ہائیر سیکنڈری سکول میں اسلامیات یا قرأت سکھانے والے اساتذہ کی امامت میں طلبہ ‘ اساتذہ اور دیگر عملہ کی نماز ظہر کی ادائیگی کی روایت تھی صوبہ کے بیشتر اضلاع کے سکولوں میں اب بھی نماز کا باقاعدہ اہتمام ہوتا ہے لیکن سرکاری شیڈول کے مطابق یہ لازمی نہیں تھا جسے اب لازمی گرداننے کا احسن حکم نامہ جاری کردیاگیا ہے ۔ سکولوں میں اساتذہ اور عملہ اپنے طور پر یقینا نمازباجماعت یا انفرادی طور پرادا کرنے کا اہتمام کرتے ہوں گے لیکن طالب علموں کے لئے نماز کا باقاعدہ وقت مقرر نہ ہونے اور سکول انتظامیہ کی جانب سے نماز کے ضروری لوازمات کی عدم فراہمی سے طلبہ نماز کی ادائیگی سے محروم رہتے تھے گھرواپسی پر نماز کی ادائیگی میں تاخیر یا کبھی کبھی نمازقضا ہو جاتی تھی۔ سرکاری اوراکثر نجی سکولوں میں نماز ظہرکی ادائیگی کے انتظامات و اہتمام نہ ہونے کے برعکس بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ذیلی سکولوں میں ظہر کی نمازکی باقاعدہ ادائیگی یہاں تک کہ چھٹی سے عین قبل نماز کی ادائیگی کے بعد طالب علموں کو گھر جانے کی اجازت کا باقاعدہ نظام چل رہا ہے جو نجی سکولوں کی انتظامیہ کے لئے خاص طور پرقابل تقلیدعمل ہے جس کے پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت صرف سرکاری سکولوں ہی میںظہر کی نماز کے اہتمام کی ہدایت پر اکتفا نہ کرے بلکہ نجی سکولوںکی انتظامیہ کو بھی اس امر کا پابند بنایا جائے کہ طالب علموں کے ظہر کی نمازقضا نہ ہویہ ایک بابرکت فیصلہ ہے جس پرمن حیث المجموع عملدرآمد کی راہ میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی اساتذہ کرام اور خاص طور پر دینیات ‘ عربی اور قرآن کریم کی تعلیم دینے والے اساتذہ سے بطور خاص توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اس دینی فریضے کو خوش اسلوبی سے ادا کرنے کا اہتمام کریں گے سکول میں کسی دن علماء اساتذہ حاضر نہ بھی ہوں تب بھی کسی بھی معلم کے لئے باجماعت نماز کی امامت کوئی مشکل امر نہیں۔ ہم ایک مرتبہ پھر اس جانب توجہ مبذول کرا رہے ہیں کہ نجی سکولوں میں بھی نماز ظہر کی باقاعدہ ادائیگی و اہتمام کرانے پرخاص توجہ دی جائے ۔
شفافیت کے عملی تقاضے پورے کرنے کی ضرورت
وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی بیرسٹر محمد علی سیف کی جانب سے کورونا فنڈ کے استعمال میں عدم شفافیت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کورونا فنڈ کے استعمال میں تمام ضابطے پوری ہونے کا جو دعویٰ کیا گیا ہے ان دعوئوں کو شفافیت کی کسوٹی پرپرکھ کراعداد وشمارکے غیرجانبدارانہ جائزے کے ذریعے الزامات کو غلط ثابت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اس کا بہتر طریقہ تھرڈ پارٹی آڈٹ ہوگا۔حسابات اور فنڈز کے استعمال کی مکمل چھان بین کے بعد ہی اس حوالے سے جو آزادانہ اور بغیر دبائو کے رائے دی جائے گی اس کے بعد ہی شفافیت پریقین کیا جاسکے گا۔یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جہاں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جائے ان کی صرف تردید کو کافی نہ سمجھا جائے اور نہ ہی سیاسی مخالفین کا پروپیگنڈہ گردان کر مسترد کیا جائے ۔شفافیت کے تقاضے پورے کرکے ہی عوام اور سیاسی مخالفین کوجواب دیا جا سکتا ہے اور ان کو اسی طرح سے ہی مطمئن کرنا بہتر ہوگا۔
انسداد کورونا ٹیموں کو معاوضے کی ادائیگی جلد کی جائے
خیبر پختونخوا میں جہاںاومیکرون سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے 44افراد میں وائرس کی تشخیص کے بعد متاثرین کی تعداد 233 ہو گئی ہے جس میں 15سے 75 سال کے عمر کے شہری شامل ہیںایسے میں خیبر پختونخوا میں روزانہ پندرہ ہزار افراد کے کورونا ٹیسٹ کا نیا ہدف دیا گیا ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ گیارہ ماہ سے معاوضہ نہ ملنے پرانسداد کورونا ٹیموں نے نمونے لینے کا سلسلہ معطل کردیا ہے جس سے سارا عمل ٹھپ ہو کر رہ جانا فطری امر ہے ساتھ ہی ساتھ یہ کورونا فنڈز کے استعمال میں بے قاعدگیوں اور خرد برد کے الزامات کو تقویت دینے کا باعث امربھی ہے۔بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ جلد سے جلدمحکمہ صحت کے ریپڈ رسپانس ٹیموں کے عملے کے سال بھر کے معاوضے کی بلاتاخیر ادائیگی کی جائے ۔یہ حکومت کا فرض بھی ہے اور حالات کا تقاضا بھی جس میں مزید تاخیر اور ناانصافی کی گنجائش نہیں۔

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات