اردو بلاگ

اڑن طشتری یا خلائی مخلوق

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ امریکی فوجی ادارہ پینٹاگون اور امریکی حکومت دو مختلف رپورٹس اس مہینے کے آخر میں جاری کریں گے جس میں وضاحت کی جائے گی کہ امریکی فضا میں کئی سالوں سے امریکہ کی نیول فورس کی جانب سے جو نامعلوم اڑتی ہوئی اور انڈے کی شکل میں شے دیکھی گئی ہے جسے(یو ایف او)بھی کہا جاتا ہے اس کی حقیقت کیا ہوسکتی ہے۔ ان کے مطابق عین ممکن ہے کہ امریکہ اس نظریے کو رد کرے گا کہ اس نامعلوم شے کا تعلق خلائی مخلوق کی زمین پر آمد سے ہوسکتا ہے اور بتانے کی کوشش کی جائے گی کہ یہ ممکنہ طور پر چین یا روس کی جانب سے امریکہ کی فضائی جاسوسی کرنے کے لئے بھیجے جانے والے ڈرونز بھی ہوسکتے ہیں۔
بہرحال امریکہ کی جانب سے جو بھی رپورٹ سامنے آتی ہے اس سے یہ بات تو طے ہے کہ امریکہ کے لئے دنوں صورت میں خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں کیونکہ اگر یہ چین یا روس کے بھیجے گئے ڈرون ہیں تو یہ امریکہ کی سلامتی کے لئے ایک انتہائی خطرناک بات ہوسکتی ہے۔ کیونکہ امریکی نیول فورس نے اسے مار گرانے اور اس کا تعاقب کرنے کی بے پناہ کوشش کی جو اپنی بلا کی رفتار کی وجہ سے ان کے ہاتھ نا لگ سکے۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ چین یا روس فضائی ٹیکنالوجی میں امریکہ پر اس درجے کی برتری حاصل کرچکے ہیں کہ وہ امریکہ کی فضا میں ڈرونز باآسانی بھیج دیتے ہیں جبکہ امریکی دفاعی نظام اسے بے بس ہوکر صرف دیکھ رہا ہوتا ہے۔
دوسری تھیوری یہ ہے کہ یہ گول اڑتی ہوئی شے خلائی مخلوق کی جانب سے بھیجے جانے والے آربیٹر بھی ہوسکتے ہیں جو زمین پر ویسے ہی تحقیق کے لیے بھیجے گئے ہونگے جس طرح زمین سے مریخ یا دیگر سیاروں کی جانب آربیٹڑ بھیجے جاتے ہیں۔ مگر یہاں ایک خطرناک بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ ہماری کہکشاں میں زمین کے علاوہ کسی اور سیارے میں زندگی نہیں پائی جاتی۔ البتہ ناسا کی تحقیق کے مطابق ہماری کہکشاں سے کھربوں میل دور دوسری کہکشاں میں ایسے سیارے موجود ہیں جو ہماری ہی زمین کی طرح ہیں۔ اور وہاں بھی شاید زندگی موجود ہوگی۔ مگر وہاں پہنچنے کے لئے ہمارے پاس اس طرح کی ٹیکنالوجی موجود نہیں جو سورج کی روشنی کی رفتار سے ہماری خلائی گاڑی کو وہاں پہنچاسکے۔ تو ایسے میں تشویشناک بات یہ ہے کہ اگر یہ یو ایف اوز واقعی خلاء مخلوق کی جانب سے بھیجے گئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس سورج کی روشنی کی رفتار سے سفر طے کرنے والی ٹیکنالوجی موجود بھی ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے۔
کچھ سوال یہ بھی ہوتے ہیں کہ اگر یہ یو ایف اوز واقعی کسی اور کہکشاں سے آئے ہیں تو اسے دھرتی پر امریکہ کی فضا ہی کیوں ملی اور یہ کہیں اور کیوں نہیں تحقیق کرنے جاتے ؟ تو اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ ناسا ہی نے اب تک اسپیس کی تحقیق میں اپنی کہکشاں سے باہر کہکشاں میں ان سیاروں کا پتہ لگایا ہے جہاں زندگی موجود ہے۔ تو ممکن ہے کہ یہ خلائی آبجیکٹ ناسا کے سگنلز کے ذریعے ہی یہاں تک پہنچے ہوں جو ممکن ہے کہ امریکہ کی فضا میں ناسا کا جائزہ لے رہے ہونگے۔
بہرحال یہ بات تو واضح ہے کہ ان ہزواروں کہکشاں میں ہماری اس دھرتی کے علاوہ بھی کہیں زندگی موجود ہوگی کیونکہ ان سب کا ارتقا تو بگ بینگ تھیوری کے تحت ایک ہی مقام سے ہوا ہے۔ اس لیے وہاں بھی کہیں نا کہیں ایسا ہی قدرتی نظام موجود ہوگا جو یہاں ہے۔ لہذا ہمیں مستقبل میں ہر طرح کے خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا ہوگا کیونکہ جو مخلوق ہم سے پہلے جدید ٹیکنالوجی حاصل کرسکتی ہے وہ ہماری دھرتی پر قبضہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھ سکتی ہے۔