کاش سب سے پہلے پاکستان ہوتا

سیاست میں ہر ایک بات واضح نہیں کہی جاتی کچھ باتیں کان لگا کر سننا پڑتی ہیں ‘ کچھ باتوں کو زیر لب کہا گیا ہوتا ہے ان کا مفہوم تلاش کرنا پڑتا ہے ‘ کچھ باتوں کا کہیں ذکر نہیں ہوتا نہیں محسوس کرنا پڑتا ہے ۔اس وقت پاکستان میں سیاسی صورتحال کا پارہ توچڑھا ہوا ہے لیکن اس پارے کی نبض پردراصل کس کا ہاتھ ہے یہ سمجھنے اور پوری طرح جان لینے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک یہ سمجھ نہ آئے گی یہ بات بھی سمجھ نہ آئے گی کہ اچانک ہی اپوزیشن ایسی متحد کیسے ہوگئی کہ تحریک عدم اعتماد بھی جمع کروا دی گئی اور تحریک انصاف کے لوگوں کوخریدنے کے لئے ہر قسم کی پیش بندی بھی مکمل ہوگئی۔ دور کی کوڑیاں لانے کی ضرورت نہیں سب کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہی ہو رہا ہے لیکن جیسے کہا جاتا ہے کہ کسی چیز کو چھپانے کے لئے کئی بار کوئی جگہ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کسی اوٹ میں ہونے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی ۔ کئی بار بالکل سامنے رکھ دینے سے بھی اس چیز پر سے توجہ ہٹ جاتی ہے جسے انگریزی محاورے میں Hiding in Plain Sightکہا جاتا ہے ۔ اپوزیشن کے دل میں عوام کا کتنا درد ہے اور وہ اس درد کو دور کرنے کے لئے کتنا تڑپ رہے ہیں اس کے حوالے سے کوئی لمبی چوڑی بحث کرنے اور منطق تراشنے کی ضرورت نہیں۔ یہ باتیں سب پر ہی کھلی ہوئی ہیں ان کا کوئی ایک حرف پوشیدہ نہیں۔ اس سب میں چند ایک سوال ہیں جو ذہن کے دروازے پر بار بار دستک دے رہے ہیں بس انہی کے جواب ہیں جو منظر کو خاصا واضح کر دیں گے لیکن اپنی تمام ترخواہش کے باوجود اپوزیشن کے باہمی اختلافات بھی سب کے سامنے واضح تھے اور ان کے لئے اپنے اختلافات پر قابوپانا بھی مشکل دکھائی دیتا تھا ۔ میاں شہباز شریف ‘ مائنس ون فارمولے میں میاں نواز شریف کو منہا کردینے کے لئے بھی تیار دکھائی نہ دیتے تھے ۔ کوئی بیل بھی منڈھے چڑھتی دکھائی نہ دے رہی تھی ۔ عمران خان صاحب اور ان کے ساتھی بھی اپنی داخلی پریشانیوں کے ساتھ گھسٹتے گھسٹتے ان کی حکومت کے آخری سال کی جانب بڑھتے دکھائی دے رہے تھے کہ عمران خان صاحب نے روس کا دورہ کیا اور اسی دوران روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا۔ عمران خان کا دورہ روس پاکستان کے مفادات کے حوالے سے کامیاب رہا۔ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد پوری یونین نے پاکستان کی حکومت کو خط لکھا کہ پاکستان کو روس کے اس اقدام کی مذمت کرنی چاہئے ۔ اس خط کا وزیر اعظم نے نہایت سخت جواب دیا اور اس سخت جواب پرانہیں خاصی تنقید کا بھی سامنا رہا ۔ ان کے اس خط کے جواب میں Absolutely Not کہنے پر پاکستان کے اندر بھی پریشانی پائی گئی کہ ایسی سفارتی زبان بین
الاقوامی معاملات میں استعمال نہیں کی جاتی ۔ عمران خان صاحب کے اس جواب سے بہرحال پاکستانی عوام خاصے خوش تھے اور اطمینان محسوس کر رہے تھے کہ پاکستانی حکومت نے پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر تشخص میں حمیت کے پہلو کوخاصا اجاگر کیا ہے۔ اس ساری صورتحال کااس وقت ذکر کرنا اس لئے ضروری ہے کیونکہ حمزہ شہباز شریف صاحب نے حال ہی میں میڈیا سے خطاب کیا جس میں عمران خان صاحب کو سیاسی انداز میں للکارنے کے ساتھ انہوں نے چند اہم باتوں کا ذکر کیا ان باتوں نے مجھے سوچنے پر مجبورکر دیا ہے ۔ ایسے محسوس ہوا کہ میاں شہباز شریف کا وزیر اعظم ہونے کی خواہش رکھنا اور حمزہ شہباز کا میڈیا سے خطاب کئی اور باتوں کی جانب بھی اشارہ کر رہا ہے ۔ حمزہ شہباز کہہ رہے تھے کہ موجودہ وزیر اعظم کیسے آدمی ہیں کہ یورپی یونین کو للکارتے ہیں انہیں Absolutely Not کہتے ہیں اگرچہ میں وہ جملے استعمال نہیں کر سکتی جو حمزہ شہباز نے استعمال کئے لیکن ان کی باتوں کی روح آپ تک پہنچانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اس حوالے سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ جملے اتنے سادہ نہیں ان کا عوام سے بھی کوئی تعلق نہیں ‘ یہ تو کھلم کھلا پیغام ہے جو ان لوگوں کو دیا جارہا ہے جو موجودہ حکومت کو اپنی جگہ سے اس لئے ہٹانا چاہتے ہونگے کیونکہ بیرون ملک بھی پاکستان کی موجودہ حکومت سے کئی عناصر ناخوش ہیں۔
کچھ باتیں بالکل سامنے کی ہوتی ہیں۔ یہ نہیں کہ موجودہ حکومت نے درون ملک بہت کمال کے کام سرانجام دیئے ہیں ‘ ان کی نااہلی سے ہم میں سے اکثریت ناخوش ہے ۔ مہنگائی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے اور معاملات کسی صورت بھی قابو میں نہیں آرہے مگر اس کے باوجود کئی لوگ ایسے میں جو اس حکومت کے علاوہ کسی کو ووٹ نہیں دینا چاہتے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ راتوں رات میاں شہباز شریف کے انشاء اللہ وزیر اعظم ہونے کی پوسٹر بھی لگ گئے ۔وہ بارہ منحرف اراکین جو سندھ ہائوس میں موجود ہیں ان کے عزائم کی تو کیا بات کی جائے ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کی باتوں میں ان کے گلے شکوئوں میں کوئی ایسی بات سنائی نہیں دیتی جس میں قوم کے حوالے سے کوئی بات محسوس ہو۔ کچھ ذاتی گلے شکوے ہیں کچھ مجروح انائوں کی کہانیاں ہیں۔ عوامی نمائندوں کے جملوں میں دکھاوے کو ہی ہے لیکن عوام کاکوئی ذکر تو ہونا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  اس آسیب سے قوم کو نجات دلائیں