سیکولر بھارت کی آخری ہچکی

بھارت کی پچیس کروڑ آبادی کی حامل ریاست اتر پردیش کے انتخابات میںسادھو نما انتہا پسندسیاسی راہنما یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک با ر پھر میدان مار لیا ۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا کہ یوپی کے انتخابی نتائج سے بھارت کے عام انتخابات 2024کی کامیابی کی راہ ہموار ہوگئی۔عمومی طور پر بھی کہا جاتا ہے کہ دہلی کے اقتدار کی راہ لکھنو سے ہو کر جاتی ہے۔لکھنو اترپردیش کا دارالحکومت ہے ۔ 2024 کے انتخابات میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو ہی مودی کے جانشین کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔واجپائی کے بعد مودی اور مودی کے بعد یوگی کا یہ سفر بتاتا ہے کہ بھارت ہر گزرتے دن کے ساتھ سخت گیر انتہا پسندوں کے کنٹرول میں جا رہا ہے اور سیکولر سیاست کے لئے روز بروز گنجائش تنگ ہوتی جا رہی ہے۔واجپائی ایک لبرل سیاسی راہنما تصور ہوتے تھے ان کی جگہ مودی نے لی جو گجرات کے مجرمانہ اور انتہاپسندانہ ریکارڈ کا بوجھ اُٹھائے ہوئے تھے اور اب وضع قطع کے اعتبار سے ایک کٹھ ہندو اور سادھو نماشخص یوگی ادتیہ ناتھ دہلی کے اقتدار کے راج محل کی دہلیز پر کھڑ ا نظر آرہا ہے ۔یوگی آدتیہ ناتھ کے نامہ ٔ عمل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات اور عملی مہمات کا ایک پور ادفتر موجود ہے۔بھارت کا ہندو سماج اب سیاست میں کٹھ اور سخت گیر کرداروں کو آئیڈیلائز کررہا ہے اور سیکولر اور پرانی وضع قطع کے کرداروں سے متنفر ہو رہا ہے ۔یوپی کے ایک علاقے میں ایک ٹی وی رپورٹر خاتون ووٹر سے پوچھ رہا تھا کہ مودی جی کی حکومت نے آپ کے کونسے کام کئے ۔خاتون ووٹر کا کہنا کوئی کام نہیں ہوا ۔یہ دیکھیں سڑک ٹوٹی پھوٹی ہے ۔جس پر رپورٹر نے پوچھا اس کے باوجود آپ مودی جی کی پارٹی کو ووٹ دیں گی تو خاتون نے جواب دیا جی ہاں میں مودی جی کی ہی پارٹی کو ووٹ دوں گی کیونکہ بی جے پی ایک مضبوط جماعت ہے اور ہندوئوں کا بھلا چاہتی ہے۔یہ سڑک بنے یا نہ بنے ہم مودی جی کی پارٹی کو ہی ووٹ دیں گے۔اس طرح کے جذبات یوپی کے طول وعرض میں پائے جا رہے تھے گویا کہ مودی نے ہندو شاونزم کی ایک لہر سی اُٹھا دی تھی جس میں حکومت کی کارکردگی کا سوال دب کر رہ گیا تھا۔غیر جانبدار مبصرین نے یوگی کی اس فتح کو محض نظریات کا منترا پڑھنے کانتیجہ قرار نہیں دیا بلکہ ان کے خیال میں یوگی نے عوامی بھلائی کے کچھ کام بھی کئے ۔سخت گیر اور مسلمان مخالف نظر یات کے پرچار کے ساتھ ساتھ یوگی آدتیہ ناتھ نے عام آدمی کا دل جیتنے کے لئے کچھ اہم اور بنیادی کام بھی کئے ۔یوگی نے مافیاز کو کنٹرول کیا او ر ان کے پلازوں اور زمینوں پر بلڈوزر چلا دئیے پھر اخبارنویسوں کو ہیلی کاپٹر سے دکھایا وہ نیچے مافیاز پر بلڈوزچل رہے ہیں ۔اس سے قانون کی عملداری کا ایک تاثر اُبھرا اور لوگوں کا پولیس اور انتظامیہ پر اعتماد بحال ہوا۔یوگی نے دیہاتوں میں لٹرینیں بنوائیں ۔بھارت میں یہ بات محاورہ بن چکی تھی جس ملک میں بیت الخلاء نہیں وہ چین کا کیا مقابلہ کرے گا ۔ مہینے میں دوبار مفت راشن بانٹاگیس سلنڈر اور مفت بجلی کی سہولت فراہم کی او ر یہ خواتین سے متعلقہ مسائل حل کرنے کا نتیجہ تھا کہ اس بار الیکشن میں خواتین نے زیادہ پرجوش ہو کر بی جے پی کا ساتھ دیا حالانکہ کانگریس میں ایک خاتون پریانیکا گاندھی اپنی بہترین اُردو ہندی اور انگریزی اور مخصوص ہئر سٹائل کے ذریعے خود کو اندرا گاندھی کا دوسراجنم ثابت کر رہی تھیں مگر وقت کا دھار شاید بہہ گیا تھا۔بھارت کے ووٹروں نے پریانکا گاندھی کی باتوں کو پزیرائی نہیں دی اور وہ مودی کی ذات کے اسیر ہی رہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر سنت نما یوگی آدتیہ ناتھ پر مرمٹے ۔اب اندراگاندھی کا نیا جنم تو کیا خود پنڈت نہرو کا دوسرا جنم بھی ہو تب بھی گزشتہ تیس سال میں جس ذہن کی آبیاری ہوئی وہ دوبارہ معمول کی سطح پر واپس نہیں آئے گا ۔بابری مسجد کے ملبے پر جنم لینے والی نسل نے ایک مخصوص سوچ کے زیر اثر سارا سفر طے کیا ۔وہ سفر ہے ہندو راشٹریہ کا سفر۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 2003میں بھارت کے ایک سفر میں جب ہم ایک کوچ کے ذریعے دہلی سے آگرہ ،متھرا اور اجمیر کی طرف محو سفر ہوئے تو دہلی سے آگر ہ کے راستے میں چند گز کے فیصلے پر راہ کے کنارے ایک چھوٹا مندر تعمیر ہوا تھا ۔ہم نے یہ مندر گننے کی کوشش کی مگر چند کلومیٹر کے بعد ہی ہمت جواب دے گئی ۔یہ یوپی کی ریاست تھی جہاں ایک منظم منصوبہ بندی سے مندروں کی ایک زنجیر سی بنائی گئی تھی اور یوں لگ رہا تھا کہ مذہنی ضرورت کی بجائے یہ بھارت کا ہندوامیج بنانے کی مہم ہے کیونکہ دہلی سے آگرہ کے راستے میں بلاشبہ ہر سال کروڑوں سیاح سفر کرتے ہوں گے اورجنہیں یہ باور کرانا مقصود ہے کہ بھارت ایک مذہبی ہندو معاشرہ ہے ۔اسی یوپی کی ریاست کی سیاست اور اقتدار پر بھارتیہ جنتا پارٹی نے یوگی آدتیہ ناتھ کی وزارت اعلیٰ کے ذریعے اپنی باگیں مضبوط کرلی ہیں اور اب یوگی کی وزارت عظمیٰ ایک جست کی دوری پر ہے ۔بھارت میں واجپائی کے بعد مودی اور مستقبل میں یوگی کی وزارت عظمیٰ کے سفر کو سخت ،سخت تر اورسخت ترین ہی کہا جا سکتا ہے ۔مزید سخت گیر حکومت بننے کے بعد نہ صرف مقبوضہ کشمیر کا اسلامی تشخص اور مسلمان خطرے میں ہوں گے کیونکہ انتہا پسند زیادہ پراعتماد ہو کر یہاں اپنا ایجنڈا لاگو کریں گے اور عین ممکن ہے کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا کوئی سادھو نما شخص وزیر اعلیٰ بھی بنا دیا جائے اور اس کے ساتھ آزادکشمیر کے حوالے سے نئی قانون سازی بھی کی جا سکتی ہے جس میں آزادکشمیر کو بزور بازو حاصل کرنے کے عزائم ظاہر کئے گئے ہوں گے۔بھارت کے انتہا پسندی کی جانب اس سفر کے آئینے میںہمیں ایک نظر اپنے مستقبل پر ضرورڈالنی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  مذاکرات ،سیاسی تقطیب سے نکلنے کا راستہ