علمیت کا غلط استعمال

حکومت کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ بلاول زرداری کو اردو سیکھنے کے لیے ٹیوٹر کی ضرورت ہے ہم اس کا بندوبست کر سکتے ہیں موصوف نے ٹیوٹر کا نام بھی بتا دیا، کہتے ہیں شیخ رشید ایک اچھے ٹیوٹر ثابت ہو سکتے ہیں یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ بھوکھا بھوکھے کی مدد کیسے کرے گا کیونکہ بھوکا بھوکھے کی مدد کرے گا تو دونوں ہی پر غش پڑ سکتا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ شیخ رشید کی اردو اتنی کمزور ہے کہ انہیں خود ٹیوٹر کی ضرورت ہے عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ قانون میں ہاتھ لینے والوں کو نہیں چھوڑوں گا ٹیوٹر کی ضرورت وزیراعظم عمران خان کو بھی ہے موصوف نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ان کی” نشت” پر آصف علی زرداری، فضل الرحمن اور شہباز شریف ہیں جو شخص اپنی ہی ”نشت” پر فائر کرنے پر آمادہ ہو اس کی اردو کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔
علمی اعتبار سے ادبی ڈاکٹروں میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو میڈیکل ڈاکٹروں کی طرح الفاظ کو مزید بیمار کر دیتے ہیں اور المیہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی اس خامی اور کوتاہی کو ماننے پر آمادہ نہیں ہوتے ہمارے ایک ادبی کالم کو بہاولپور کی ادبی تنظیم نے جہالت اور لا علمی کا شاہکار قرار دیا تھا اجلاس میں اس پر گفتگو کی گئی تمام اعتراضات سننے کے بعد ہم نے کہا سزائے موت پانے والے کی بھی آخری خواہش کا احترام کیا جاتا ہے یہی ہماری روایت ہے یہی ہماری تہذیب کا تقاضا ہے اس لیے ہماری خواہش کا احترام بھی ضروری ہے، ہماری خواہش کو نظر انداز کرنے کی بہت کوشش کی گئی مگر اجازت دینا ہی پڑی، واقعہ کچھ یوں ہے ہم نے لکھا تھا لفظ بھی آدمیوں کی طرح گونگے اور بہرے ہوتے ہیں ان کا مفہوم سمجھنے کے لیے لب و لہجے اور سیاق و سباق پر غور کرنا پڑتا ہے پروفیسر صاحبان میں سے بعض افراد کو ہماری رائے سے سخت اختلاف تھا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کے اعتراض کو تقویت دینے والے بھی مل گئے ہم نے اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لیے ایک پروفیسر سے پوچھا کہ غریب نواز کے کیا معنی ہیں سوال پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ سبھی کو یہ سوال ذلت آمیز لگا مگر ہم بضد رہے کہ جواب دیا جائے ایک صاحب نے چیخ کے کہا کہ غریب نواز غریب کو نوازنے والے کو کہتے ہیں تب ہم نے دوسرے سوال کا میزائل چلا دیا، پوچھا اللہ نواز کے کیا معنی ہیں ہمارے سوال نے سبھی کے حواس گم کر دیے پھر ہم نے کہا آپ مخالفت برائے مخالفت کے عادی ہیں، دوسروں پر اپنی علمیت کا رعب ڈالنے کی علت میں مبتلا ہیں آپ اصرار کرتے ہیں کہ ناراضگی غلط ہے کیونکہ جس لفظ کے آخر میں چھوٹی ہ آتی ہے اسے گی۔ میں بدل دیا جاتا ہے سو ناراض سے ناراضی درست ہے ناراضگی غلط ہے مگر خفا سے خفگی بنانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے جنہیں مطالعے کی عادت ہے وہ کہہ سکتے ہیں کہ خفگی خفا سے نہیں خفہ سے بنتا ہے مگر یہ لا حاصل بحث ہے کیونکہ خفگی اردوکا لفظ ہے اور اردو کا لفظ خفا سے مشتق ہے ہمارا خیال ہے جو الفاظ سماعت کو خوشگوار محسوس ہوتے ہیں ان پر علمیت جھاڑنا غلط ہے غلطی کوئی بھی ہو اس پر اصرار بہت بڑی غلطی ہے ناراضگی اور موجودگی لکھنے اور بولنے سے اردو کی صحت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا، اغماز کو اغماض لکھنا اور بولنا مفہوم کو بدل دیتا ہے کیونکہ اغماز کے معنی ہیں غرور کرنا ناز کرنا اور اغماض کے معنی ہیں چشم پوشی کرنا استیصال کے معنی ہیں جڑ سے اکھاڑنا اور استحصال کے معنی ہیں حاصل کرنا، حاصل کرنے کی خواہش کرنا استحصال بالجر کے معنی ہیں ڈرا دھمکا کے حاصل کرنا، زبردستی حاصل کرنا مگر اکثر ادیب اور سیاست دان استحصال کو استیصال ہی لکھتے اور بولتے ہیں مگر ان پر کوئی توجہ نہیں دیتا نہ اعتراض کرتا ہے ان کی علمیت موجودگی اور ناراضگی تک محدود ہو کر رہ گئی ہے حالانکہ استحصال کو استیصال لکھنے اور بولنے سے معنی بدل جاتے ہیں ہمارے خیال سے بہتر ہو گا جن لفظوں سے معنی نہیں بدلتے ان پر اعتراضات کی سنگ باری نہ کی جائے ہمیں ان لفظو ں کے تلفظ پر غور کرنا چاہیے جو مفہوم بدل دیتے ہیں مقدس ہستیوں کے لیے نمونہ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جو انتہائی افسوس ناک ہے کیونکہ مقدس ہستی کے لیے کوئی ایسا ذو معنی نہیں کرنا چاہیے جس میں ضم کا پہلو نکلتا ہو، لفظ نمونہ میں واضح طور پر ضم کا پہلو ہے اور وہ بھی تحقیر آمیز ہے اس لیے کسی مقدس ہستی کے لیے مثیل، بے مثال، بے نظیر جیسے لفظ استعمال کرنا چاہیے مگر کسی کو اس پہلو پر غور کرنے کی توفیق ہی نہیں شاید من حیث القوم بے توفیق واقع ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں:  ''ہمارے ''بھی ہیں مہر باں کیسے کیسے