سیاست میں سامراج مخالف بیانیہ کی واپسی

ملک میں آج حکومت اور حزب اختلاف بھرپور طاقت آزمائی کر کے رہے ہیں ۔پی ڈی ایم اور اس کی ہمدرد جماعتیں ملک بھر سے لانگ مارچ کر رہی ہیں تو وزیر اعظم عمران خان نے تاریخ کے سب سے بڑے جلسے کا انعقاد کیا ۔اس جلسے کے لئے بھی ملک کے مختلف حصوں سے قافلے اسلام آباد آئے ۔بالخصوص امریکہ مغربی بلاک اور روس وچین اور مسلمان دنیا اس دنگل کو سانسیں روک کر دیکھ رہے ہیں ۔پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ سامراج دشمن موقف کا خانہ موجود رہا ہے ۔یہ الگ بات کہ ذوالفقار رعلی بھٹو کے بعد یہ خانہ خالی چلا آرہا ہے ۔شاید ان کے انجام سے ڈرکر پاکستان کے کسی سیاست دان نے اس وادی ٔ پرخار میں قدم نہیں رکھا کیونکہ اس وادی کی طرف جانے والی ہر راہ فیض کے اس مصرعے کے مصداق ہے ” ہر راہ جو اُدھر کو جاتی ہے مقتل سے گزر کر جاتی ہے ”۔عالمی سسلین مافیا کے خلاف آواز بلند کرنا ہر عالمی راہنما کے لئے مہنگا سودا ثابت ہوتا ہے ۔اس کے لئے صدام کی طرح بڑھی ہوئی شیو اور پھٹے ہوئے جامے کے ساتھ کسی غار سے برآمد ہونا پڑتا ہے یا قذافی کی طرح کسی پائپ کے اندر سے خون آلود چہرے کے ساتھ برآمد ہو کر ہجوم کے تشدد کا شکار ہونا پڑتا ہے یا شاہ فیصل کی طرح اپنے عزیز کی کسی سنسناتی گولی کا شکار ہو ناپڑتا ہے ،بھٹو صاحب کی اپنی پارٹی نے بہت جلد ہی یہ سبق ازبر کر لیا کہ سامراج کے ساتھ ٹکر لے کر پاکستان میں سیاست بالخصوص اقتدار کی سیاست نہیں کی جا سکتی اسی لئے ایک روز بے نظیر بھٹونے اپنے کارکنوں کو امریکہ کا جھنڈا جلانے اور پیروں میں بچھانے اور امریکہ مردہ باد کا نعرہ بلندکرنے سے سختی سے روک دیا۔اس کے بعد پاکستان میں سیاست سے جرنیلوں تک سب اس شعر کی تصویر بن کر رہ گئے
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
اب تو برسوں سے اقتدار کی میوزیکل چیئر کا ہر کھیل امریکہ سے شروع ہو کر امریکہ پر جا کرختم ہوتا ہے ۔عمران خان اس مزاج کو تبدیل کرنے کی جانب مائل نظر آتے ہیں ۔و ہ مغرب کی سامراجی پالیسیوں پر برس رہے ہیں ۔ان کے تضادات کو نمایاں کرکے پیش کر رہے ہیں ۔اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسا کوئی عالمی فورم ہو یا کسی گائوں کی کوئی کارنر میٹنگ وہ ہر جگہ مغرب کی پالیسیوں پر لگی لپٹی رکھے بغیر ہدف تنقید بناتے ہیں ۔اس طرح وہ پاکستان کے اندر ہمیشہ سے موجود سامراج مخالف ذہن کو اپنا ہمنوا بنا رہے ہیں۔یہ وہ ذہن ہے جو مدتوں تک قیادت اور راہنمائی کو ترستا رہا ہے ۔وہ خودی خودداری ،خودکفالت اور اپنی قوم کی عظمت رفتہ کی باتیں کرکے ایک مخصوص مائنڈ سیٹ تشکیل دے رہے ہیں ۔گویا کہ پاکستانی نیشنل ازم کو جگا رہے ہیں ہوا دے رہے ہیں ۔ کولن پاول کے فون کے جواب میں جنرل مشرف کے ”یس” کو وہ” ابسولیٹولی ناٹ” میں بدل کر پر خطر راہوں پر چل پڑے ہیں۔چین اور روس کے ساتھ قربتیں بڑھا کر وہ وہ اس جاود نگری میںقدم رکھ چکے ہیں جس میں قدم رکھنے والے ذوالفقا رعلی بھٹو سمیت بہت سے حکمران پتھر کے ہو کر رہ جاتے رہے ہیں۔ایک دور میں ان جذبات کو دفاع پاکستان وافغانستان کونسل بنا کر مذہبی جماعتوں نے کیش کیا تھا مگر وہ اسے ایک اسلوب بناکر آگے چلنے کی بجائے مولانا فضل الرحمان کی عملیت پسندی کی راہ پر چل پڑی ۔خود امریکہ کو یہ اندازہ ہے کہ پاکستان میں اینٹی امریکن ازم فروخت ہونے والا ایک سودا ہے ۔گویا کہ اینٹی امریکن ازم پاکستانی معاشرے میں موجود ایک حقیقت ہے ۔ بات صرف اتنی ہوتی ہے کہ اس تار کو کون مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ چھیڑتا ہے ۔ پاکستان میں تو جمہوریت کا دامن ہر دور میں تار تار رہا ہے ۔ہر دس سال بعد ملک گھوم پھر کر پرانے مدار میں پہنچ جاتا ہے ۔یوں ایک دائرے کا سفر ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ایک بحران حل ہو تو دوسرا بیان جنم لیتا ہے ۔ایک سیاسی عدم استحکام کے بعد دوسرے کا انتظارہونے لگتا ہے ۔ایک چہرہ منظر سے ہٹ جائے تو اسے ایک عظیم انقلاب قرار دے کر مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں پھر چند برس بعد پتا چلتا ہے کہ جانے والاحالات کا قتیل تھا اور اصل انقلاب تو لمحہ ٔ موجود کے حکمرانوں کے خلاف برپا ہونا چاہئے ۔ عوام خوابوں کا تاج محل بہت محبت سے تعمیر کرتے ہیں پھر حالات کی ہوا کا ایک جھونکا اس تاج محل کو خس وخاشاک کی مانندبہا کرلے جاتا ہے۔ جمہوریت کا دامن اس قدر تار تار رہا ہے کہ یہاں اسمبلی کے ایوان میں ایک ڈپٹی سپیکر کو کرسی مار کر ہلاک کیا گیا ۔ستر کی دہائی میں سارجنٹ ایٹ آرمز کے ذریعے اپوزیشن ارکان اسمبلی کو اُٹھوا کر ایوان سے باہر پھینکا جاتا رہا ہے ۔اسی ایوان کے در ودیوار اس بات کے گواہ ہیں کہ ‘گوبا با گو” اور ”گو بی بی گو” کی صدائوں میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی رہی ۔اس وقت ملک کا سیاسی ماحول جس قدر” چارجڈ ”ہے اس میں کسی حادثے کا خطرہ اور دھڑکا لگا رہتا ہے ۔اس وقت حکومت اور حزب اختلاف میں کشیدگی پورے زوروں پر ہے۔ دونوں لفظوں کا بارود بو رہے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  بے جے پی کی''کیموفلاج''حکمت عملی