بھیڑ چال کی سیاست

حزب اختلاف اور حکومتی جماعت کے بڑے بڑے اجتماعات مرکز اور پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اورناکامی سے قطع نظروطن عزیز میں تصادم اور انتشار کی کیفیت کے باعث جمہوریت اور جمہوری اقدار کی ناکامی کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں ۔ حصول حکومت اور تحفظ اقتدار کے لئے غیر جمہوری حربوں کا استعمال کسی سے پوشیدہ امر نہیں صرف انہی ماہ و سال کا جائزہ لیاجائے تو اگرتحریک عدم اعتماد کے دنوں میں سندھ ہائوس میں بیٹھے ارکان کی بولی لگنے کے الزامات سامنے آئے تو دوسری طرف سینٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات میں ارکان کی وفاداریاں جس طرح تبدیل ہوئیں وہ کوئی پوشیدہ امر نہیںایسا لگتا ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیںاور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں کا بیوپار ہر دور میں عروج پر رہتا ہے ۔تواتر سے وفاداریاں بدلنے والے مضبوط امیدواروں کی چونکہ کامیابی یقینی ہوتی ہے اس لئے ہوا کا رخ دیکھ کر جہاں وہ پرتولنے لگتے ہیںوہاں ان کو حصول اقتدارکی منزل کے متلاشی جماعتوں کی جانب سے گلے لگایا جاتا ہے ایسے میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہان کے لئے اپنے کس وفادار کی قربانی دینی پڑ جائے ایسا لگتا ہے کہ وہ نظام جو عوام کے ذریعے عوام کے لئے ہونا چاہئے تھا وہ سپانسرز کے ذریعے اس طرح کے عناصر کے لئے مخصوص ہوچکا ہے سو کے لگ بھگ وفاداریاں ہوا کا رخ دیکھ کر بدلنے والے یہ عناصر حکومت بناتے بھی ہیں اور حکومت کو دبائو میں لا کر اپنا الو بھی سیدھا کرتے ہیں اور جب ہوا کا رخ بدل جائے تو طوطا چشمی میں بھی طاق نکلتے ہیںاسے بدقسمتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں میں سے کسی پارٹی میں یہ جرأ ت نہیں کہ وہ اس طرح کے عناصر کو ملائے بغیر الیکشن میں کامیابی حاصل کرے’ اقتدار میں آئے اور حکومت کرے ۔پاکستان کی سیاست میںگھوڑوں کا بیوپار پرانا کھیل ہے سیاسی نظام چند خاندانوں کے قبضے میں ہے اور خاص طورپرمحولہ قسم کے عناصر عوام کو محکوم بنا کر رکھنے کے ذمہ دار ہیں جب تک عوام بیدار نہیں ہونگے اور متناسب نمائندگی کا نظام رائج نہیں ہو گا وزیر اعظم کو براہ راست منتخب کرنے کا طریقہ اختیار نہیں کیا جائے گا ملکی سیاست ان عناصر کے ہاتھوں یرغمال ہی رہے گی۔پاکستانی پارلیمنٹ میں اس طرح کے مہروں کے استعمال کے ذریعے کبھی بھی تبدیلی لائی جا سکتی ہے دیکھا جائے تو ہر بار یہی مہرے استعمال ہوتے آئے ہیں بار بار ایک ہی سوراخ سے ڈسے جانے کے باوجود سیاستدانوں کو عقل نہیں آتی اب جو ماحول اور ملکی سیاست کا انداز نظر آرہا ہے اس سے یہ تاثر راسخ ہوتا جا رہا ہے کہ حکومت اور سیاستدانوں میں ملک کو جمہوری طور پر چلانے کی کوئی صلاحیت نہیں اور ان لوگوں کے ہاتھوں ملک تباہی کے کنارے پہنچا ہوا ہے ایسے میں صرف سیاستدانوں ہی کے خلاف آوازیں نہیں اٹھیں گے بلکہ اس سارے نظام ہی کو ناکام قرار دیا جانا فطری امر ہوگا۔ ایسا اس لئے بھی نظر آتا ہے کہ سیاستدان جمہوری طریقے سے معاملات کو آگے بڑھانے اور جمہوری طور طریقے اختیار کرکے کامیابی اور ناکامی کا سامنا کرنے کی بجائے ملک کے معاملات میں کبھی اداروں کو گھسیٹنے کی کوشش کرتے ہیں کبھی عدلیہ پر الزام تراشی اور انگشت نمائی ہوتی ہے ۔الیکشن کمیشن توگویاکبھی بھی سیاستدانوں کے نزدیک بلکہ ہارنے والی جماعتوں کے ہاں کبھی بھی معتبر نہیں ٹھہرااب اس امر کا ادراک کرنا ہو گاکہ پاکستان کی ترقی اور بقاء جمہوریت ‘ آئین اور قانون کی حکمرانی میں پوشیدہ ہے اور دوسری جانب سارے اداروں کو بھی اپنی اپنی حدود میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہو گی اسی طرح ہی سے ملک آگے بڑھ سکتا ہے ۔ ملک میں ماورائے آئین اقدامات اور سیاسی معاملات میں مداخلت جب تک ہوتی رہے گی توپاکستان میں حکومتیں تو ضرور تبدیل ہونگی مگر یہ مسائل کا حل نہیںپاکستان میں حکومت کی تبدیلی کی ضرورت ہو نہ ہو نظام کی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے چہرے بدل کر ماضی کی طرح کی صورتحال کوئی کامیابی نہیں اصل کامیابی وطن عزیز کو مشکل حالات سے نکالنا ہے جس کی مروج حالات میں توقع نہیں کی جاسکتی ۔ان حالات میں صرف سیاستدانوں ہی کی فراست کافی نہیں عوام کو بھی اس کا مظاہرہ کرنا ہو گا قوم کو اب ان مہروں کو جن کے چہرے بار بار بے نقاب ہوتے ہیں اور ان کو پہچانا کوئی مشکل نہیں ان کی کامیابی میں اپنا حصہ ڈالنے سے احتراز کرنا ہو گا اس طرح کے عناصر جب ووٹ مانگنے آئیں تو ان سے پچھلی وعدوں اور ان پر عمل درآمد کا سوال کیا جانا چاہئے موروثی سیاست اور ملوکیت کا خاتمہ ہونا چاہئے اور جو سیاسی جماعت ان عناصر کے خلاف خلوص کے ساتھ اور عملی طور پر سامنے آئے عوام کو ان کے ہاتھ مضبوط کرنا ہونگے اب تک تو بہرحال المیہ یہی رہا ہے کہ عوام کی جانب سے پوری کوشش کے باوجود قافلے منزل ہی پر لٹوائے جانے کا کردار مسلمہ رہا ہے اس وقت اقتدار کی جو کھینچا تانی جاری ہے اس میں بھی انہی عناصر کا کردار نمایاں ‘ موثراور واضح ہے ہوا کا رخ جب ایک جانب تھا تو انہوں نے وہی رخ اختیارکیا اور بدقسمتی سے حصول اقتدار کے لئے ان کی مدد لینے کی غلطی کی گئی اور اب جب ہوائوں کا رخ بدل گیا ہے تو یہ عناصر بھی اڑان بھرنے والے ہیں ملک میں حقیقی سیاست اور حقیقی سیاستدان الگ الگ اور کمزور ہیں سیاسی مینڈیٹ کی کوئی وقعت نہیں رہتی خود سیاسی جماعتیں حصول ا قتدار کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں اور اسی طرح اقتدار بچانے کے لئے بھی انہی مہروں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی روایت ہے ایسے میں عوام کے لئے مستقبل قریب میں بھی کوئی اچھی خبر دکھائی نہیں دے رہی کوئی معجزہ ہی عوام کی مشکلات کا مداوا کر سکتا ہے البتہ اگر عوام ان چہروں کو جنہیں وہ اب بخوبی پہچان چکے ہیں آئندہ انتخابات میں بری طرح مسترد کرکے حقیقی نمائندوں اور خلوص کے ساتھ عوام کی خدمت کرنے والوں کو کامیاب کرکے ان کے اقتدار میں آنے کا راستہ ہموار کریں تو ان مہروں سے نجات ممکن ہو گی اور ملک میں حقیقی معنوں میں عوام کے ووٹوں سے آنے والی حکومت قائم ہو گی جو دیگر عناصر کی بجائے خود کو عوام کے سامنے جوابدہ سمجھیں گے اور عوامی مسائل کے حل کے لئے جوابدہی کے خوف کے ساتھ عوام کی خدمت میں کوشاں ہوںگے ۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں سے ہوشیار