جسٹس عمر عطا بندیال کا رات 12 بجے عدالتیں کھولنے کے حوالے سے بیان

اسلام آباد : چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال کا رات 12 بجے عدالتیں کھولنے کے حوالے سے بیان ، چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی جانب سے 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت شروع ۔
عدالتیں رات کو 12 بجے کھلنے کے حوالے سے بیانات کا نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے بتایا کہ ہم آئین کے محافظ ہیں، سوشل میڈیا پر جو چل رہا ہے ہمیں اس کی پرواہ نہیں اور یہ عدالت چوبیس گھنٹے کام کرتی ہے۔کسی کوعدالت پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں، سماعت کے موقع پر وکیل مصطفی رمدے کا کہنا تھا کہ جس ریفرنس میں آڈیو وڈیو کا ذکر کیا گیا اس پر حکومت نے خود کچھ نہیں کیا۔
ریفرنس کی سماعت کے موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے درخواست کی کہ نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی کا انتظار کیا جائے ، چیف جسٹس نے کہا کہ صدارتی ریفرنس میں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوگئے تھے، میرے خیال میں ہمیں صدارتی ریفرنس کو چلانا چاہیے۔
وکیل مصطفی رمدے کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں حکومت تبدیل ہوئی وفاق نے کچھ نہیں کیا، اسلام آباد ،پنجاب میں جو ہوا وہ بھی عدالت کے سامنے ہے۔ وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں ثبوت لے کر 2ممبران اسمبلی الیکشن کمیشن گئے تھے، چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ آپ کے دو ارکان اسمبلی الیکشن کمیشن گئے تھے مگر آپ کی جماعت نہیں، معذرت سے کہتا ہوں آپ کی جماعت آڈیو وڈیو معاملےپر سنجیدہ نہیں تھی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ ازخود نوٹس لیں، سپریم کورٹ ازخود نوٹس لئے جانے کے طریقہ کار طے کرچکا ہے، کوئی شکایت ہے یا نہیں کیا ہورہا ہے ہم نہیں جانتے۔بابر اعوان نے کہا کہ حفیظ شیخ کو شکست ووٹ بکنے سے ہوئی، شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، چیئرمین سینیٹ الیکشن پر پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن میں درخواست دی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ وہ پارلیمانی جمہوریت کا دفاع کریں، ریفرنس سے لگتا ہےآئین میں نقص نہیں بلکہ ہم میں ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے دلائل دیے کہ ووٹ پارٹی کی امانت ہوتا ہے، پیسے دیکر ضمیر نہیں بیچا جاسکتا ، پیسے دیکر تو اراکین اسمبلی سے ملک مخالف قانون سازی کرائی جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں جو حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہے، تمام اسٹیک ہولڈر عدالت کی جانب دیکھ رہے ہیں، اب تو منحرف اراکین عوام میں بھی نہیں جاسکتے، سینیٹ الیکشن کے بعد بھی ووٹ فروخت ہورہے ہیں۔
جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ کیا عدالت اپنی طرف سے تاحیات نااہلی شامل کر سکتی ہے؟َ
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح میں عدالت تاحیات نااہلی قرار دے چکی ہے۔
عدالت نے سماعت کل دن ایک بجے تک ملتوی کردی۔

مزید پڑھیں:  اوور بلنگ پر 3سال کی سزا کا بل منظور