بے حسی شرط ہے جینے کیلئے

انیلہ محمود
سوچا جائے تو انسان احساس کا مجموعہ ہے اگر انسان احساس سے عاری ہو جائے تو وہ گوشت کے لوتھڑے اور ہڈیوں کے پنجر کے سوا کچھ نہیںانسانی رشتے اور تعلقات خون کی بنیاد پر نہیں احساس کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔احساس سے عاری لوگوں اور راستے میں پڑے پتھر میں کوئی فرق نہیں ہوتا،دونوں سے کسی ذی روح کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا البتہ ٹھوکر لگنے سے نقصان اور تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ضرور ہوتا ہے۔
اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اگر ہم اس کی پیروی نہیں کرتے اس پر غور و فکر نہیں کرتے تو یہ بھی احساس سے عاری ہونے کی ایک نشانی ہے۔فی زمانہ معاملہ بالکل متضاد ہو چکا ہے ،احساس کے بجائے بے حسی ہر سو” راج ”کرتی پھر رہی ہے،لوگوں نے بے حسی کو جینے کی شرط سمجھ لیا ہے جبکہ ان کے نزدیک احساس ان کی خوشی ،ترقی اور کامیابی کے راستے کی رکاوٹ ہے،دوسروں کا احساس کرنا اور ان کے بارے سوچنا ان کے لئے وقت کا ضیاع ہے۔نہ وہ دوسروں کا احساس کریں گے نہ اپنی خوشی اور وقت کی قربانی دینی پڑے گی۔
انسان کی” میں” اور گناہوں سے رغبت بھی بے حسی کی طرف مائل ہونے کی اہم وجہ ہے۔مسلسل گناہوں کا ارتکاب انسان کے دل کو سیاہ کر دیتا ہے اور محسوسات ختم ہو جاتے ہیں۔ بے حسی کی چادر اگرایک بار تن جائے پھر کوئی لاکھ کوشش کر لے اس برف کو پگھلا نہیں سکتا۔
انسانیت اصل میں احساس کا ہی نام ہے ایسے تمام کام جو ہمارے دل کو مطمئن کرتے ہیں جن کی وجہ سے ضمیر پر سکون رہتا ہے وہ انسانیت کی خدمت کے کام ہیں اور انسانیت کی خدمت ہی تو احساس ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہم احساس جیسے جذبے سے عاری ہو گئے ہیں۔حد یہ ہے کہ ہم کسی سے مسکرا کر ملنا بھی گوارا نہیں کرتے یہ جانتے ہوئے بھی کے مسکرا کر ملنا باعث ثواب ہے ۔ روزمرہ زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ انسان انسان سے تنگ ہے جانوروں کی خصلتیں انسانوں میں عروج پا رہی ہیں یہ اخلاقی زوال دیکھتے ہوئے بھی ہم پر بے حسی طاری ہے، ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں ہم اخلاقی قدروں کو روندتے چلے جارہے ہیں۔
جیسے پھول میں خوشبو نہ ہو تو بیکار لگتا ہے اسی طرح اگر رشتے میں احساس نہ ہو تو وہ رشتہ بھی بے جان اور مرجھایا ہوا لگتا ہے ہمارے پاس سب کچھ ہے مگر احساس نہیں ہے انسانی زندگی میں محبت ، دوستی حتی کہ سب تعلقات اور رشتوں کا پہلا زینہ احساس ہوتا ہے اور احساس کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہم آج ان رشتوں کو کمزور دیکھ رہے ہیں۔ہم ایک دوسرے کی مدد کی بجائے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسروں کی ترقی کو حسد اور بری نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ہم یہ بھول گئے ہیں کہ تمام خوشیا ں احساس میں پو شیدہ ہیں ،روحانی خوشی انمول ہوتی ہے جو صرف احساس سے ملتی ۔دوسروں کے احساسات و جذبات کو روندنا بے حسی اور ان کے جذبات و احساسات و خوشیوں کا خیال کرنا احساس کے زمرے میں آتا ہے۔اس لئے معاشرے کے ہر فردکو دوسروں کے لیے اپنے دل میں گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اپنے مفاد سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہئے اور ایک دوسرے کی مدد، ان کا لحاظ، خیال اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا مادہ اپنے اندر پروان چڑھانے کے لئے کوشاں رہنا چاہئے کیونکہ اسی میں حقیقی خوشی ہے

مزید پڑھیں:  پوتے کو دادا کی میراث سے حصہ کیوں نہیں ملتا؟