لاپتہ افراد کے خاندانوں کے نوحے سنے گا کون ؟

ریاست سمیت سبھی کو سمجھنا ہوگا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ ہرگزرنے والے دن کے ساتھ سنگین ہوتا جارہا ہے اس پہ ستم یہ کہ آئے دن کہیں نہ کہیں یہ خبر ملتی ہے کہ لاپتہ افراد کی تعداد میں ایک دو یا چند مزید افراد کا اضافہ ہوگیا ہے ان حالات میں امید کی ایک شمع اس وقت روشن ہوئی جب گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں لاپتہ افراد کے مقدمہ کی سماعت کے دوران سابق فوجی آمر جنرل پرویزمشرف سمیت اب تک کے تمام چیف ایگزیکٹوز کو نوٹس بھجوانے کا حکم دیتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کیوں نہ آئین سے انحراف پر عدالت تمام چیف ایگزیکٹوز کے خلاف کارروائی کرے۔ ریمارکس میں جنرل پرویزمشرف کی کتاب سب سے پہلے پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیاکہ اس کتاب میں لکھا ہے کہ گمشدگیاں ریاست کی غیراعلانیہ پالیسی کا حصہ تھیں۔ عدالت نے اٹارٹی جنرل سے کہا کہ اس معاملے پر عدالت کو مطمئن کریں کہ مزید جبری گمشدگیاں نہیں ہوں گی، اگر ایسا ہوا تو کیوں نہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے چیف ایگزیکٹوز کے خلاف فوجداری مقدمات بنائے جائیں۔ ادھر سوموار کو وفاقی کابینہ نے لاپتہ افراد کے معاملے پر کابینہ کی کمیٹی کے قیام کی منظوری دی ہے کمیٹی کے سربراہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ ہوں گے۔ جبری گمشدگی کا معاملہ اپنے آغاز سے آج تک جواب طلب ہی رہا۔ جبری گمشدگی کے سلسلے کا آغاز چوتھے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوا۔ انہوں نے اپنی تصنیف میں فخر سے نہ صرف اس کا اعتراف کیا بلکہ ان میں سے بعض کی امریکہ کو حوالگی اور انعام کی رقم کے ضمن میں بھی فخریہ اظہار کیا۔ فی الوقت ملک کے چاروں صوبوں میں یہ معاملہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ گمشدہ افراد کے ورثا اس حوالے سے جو الزامات لگارہے ہیں انہیں محض مسترد کردینا یا یہ موقف اختیار کرنا کافی نہیں کہ وہ لوگ اپنی مرضی سے روپوش ہوئے ہیں۔ سینکڑوں افراد کو ان کے گھروں، دفاتر اور پبلک مقامات سے اٹھائے جانے کے شواہد موجود ہیں۔ چند خاندانوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ ان سے ایک مخصوص رقم طلب کی گئی جس کا انتظام نہ ہوسکنے پر ان کے خاندان کے فرد کو لاپتہ کردیا گیا۔ پچھلے کچھ عرصہ میں لاہور، گوجرانوالہ اور آزاد کشمیر سے چھ سات نوجوان لاپتہ ہوئے ان کے خاندان اپنے پیاروں کو اٹھاکر لے جانے والوں کے حوالے سے شواہد لے کر گھوم رہے ہیں مگر کوئی ان کی دادفریاد سننے والا نہیں۔ اس تلخ حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ 9/11کے بعد ہمارے ہاں جبری گمشدگیوں کی جو بدعت شروع ہوئی اس پر آج بھی من و عن عمل جاری ہے۔ بعض خاندان اس عرصہ میں گھر سے سڑک پر آگئے کیونکہ ان کی کفالت کرنے والا وہ واحد فرد تھا جو لاپتہ کردیا گیا۔
کڑواسچ یہ ہے کہ اگر اس سارے معاملے میں سوفیصد نہ سہی، پچاس یا اس سے کم بھی ریاست کے موقف کو درست یا حقیقت کے قریب تسلیم کرلیا جائے تب بھی اس سوال کی اہمیت کم نہیں ہوجاتی کہ لاپتہ افراد کے خلاف قانونی کارروائی میں امر مانع کیا ہے؟ حکومت اور متعلقہ محکمے بدنامی مول لینے کی بجائے ان افراد کو باقاعدہ ملزم قرار دیں۔ مقدمات کا اندراج کروائیں اور مقدمات کی سماعت ہو تاکہ اگر کوئی واقعی مجرم ہے تو وہ کیفرکردار تک پہنچے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سب اچھا ہرگز نہیں، قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور ہورہی ہے۔ ستم یہ ہے کہ سیاستدانوں کا جو طبقہ اپوزیشن میں ہوتا ہے وہ لاپتہ افراد کے ورثا کے احتجاج میں پہنچ کر بلندبانگ وعدوں کے ساتھ اس وقت کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے لیکن جونہی اس طبقے کو اقتدار ملتا ہے وہ سب کچھ بھول بھال کر بعض محکموں کے غیرقانونی کاموں کی پردہ پوشی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ اصولی طور پر تو اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے پرویز مشرف سے آج تک کے وفاقی اور صوبائی چیف ایگزیکٹوز کو طلب کرنے کا فیصلہ درست ہے مگر کیا صرف چیف ایگزیکٹوز کو طلب کرنے سے مسئلہ حل ہوجائے گا؟ ہماری دانست میں اس عرصہ میں وزیر داخلہ کے طور پر فرائض ادا کرنے والی شخصیات کے علاوہ سیکرٹری داخلہ، ملک کی تینوں بڑی ایجنسیوں کے سربراہوں، چاروں صوبوں کے آئی جی پولیس وغیرہ کو بھی طلب کیا جائے تاکہ روزروز کے تماشے ختم ہوں۔ عدالت اس معاملہ کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے۔ مہینہ دو مہینہ یا جتنا بھی عرصہ لگے پوا سچ عوام کے سامنے آنا چاہیے اور متاثرین کو انصاف ملنا چاہیے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ چاہے تو گزشتہ15دنوں کے دوران صوبہ پنجاب کے تین شہروں گوجرانوالہ، مریدکے اور لاہور سے اٹھائے گئے نوجوانوں کے معاملے کو ٹیسٹ کیس بنالے۔ اسی طرح کراچی سے اٹھائے جانے والے بعض نوجوانوں کے ورثا نے جن پولیس افسروں پر الزامات عائد کئے ہیں انہیں نہ صرف عدالت میں طلب کیا جانا چاہیے بلکہ الزامات کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ کسی بھی مہذب معاشرے کی حکومت اپنے شہریوں کی گمشدگی پر سکون سے نہیں بیٹھتی یہ صرف ہمارے ہاں ہی ہے کہ سینکڑوں لاپتہ افراد کے ورثا دو عشروں سے انصاف کے لئے دھکے کھاتے پھرتے ہیں مگران کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات احتجاج کرنے والے نوجوانوں اور خواتین کو اٹھالیا جاتا ہے جیسے حال ہی میں کراچی میں لاپتہ افراد کے لئے احتجاج کے دوران پولیس نے دو خواتین کو گرفتار کرلیا تھا۔ لاپتہ افراد کے مقدمہ کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ میں دیئے گئے ریمارکس اور کارروائی کے حوالے سے عدالت کے موقف نے متاثرہ خاندانوں میں امید کی لہر دوڑادی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں اس معاملے میں جہاں عدالت انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھے گی وہیں وفاقی کابینہ نے لاپتہ افراد کے حوالے سے جو کمیٹی قائم کی ہے وہ بھی کسی تاخیر کے بغیر اپنا کام شروع کردے گی۔ ہم باردیگر حکومت کی خدمت میں یہ عرض کریں گے کہ اگر کسی نے جرم کیا ہے تو قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے البتہ محض شک کی بنیاد پر اٹھائے گئے افراد کی فوری رہائی کے لئے حکومت اپنا فرض ادا کرے۔

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات