دشمن کے منہ خاک

سابق وزیر اعظم و چیئرمین پی ٹی آئی عمر ان خان اس لحاظ سے دھنی ہیں کہ ان کو کوئی نہ کوئی سہولت کا ر بھی مل جا تا ہے اور آڑ کے لیے پشت بھی دست یا ب ہوجا تی ہے انھو ں نے چھ روز بعد اسلام آبا دکی طرف لانگ مارچ کی صورت دوبارہ چڑھائی کر نے کااعلا ن کیا تھا ، ان دنوں ان کاوزیر اعلیٰ ہاؤس کے پی کے میں مستقر ہے جس کے لان میں وہ واک ما ر چ کر کے اگلے لانگ ما رچ کی ریہرسل کررہے ہیں، اب ا ن کی جماعت کی جانب سے عدالت اعظمیٰ درخواست دی گئی ہے کہ اور سوال اٹھایا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کا پر امن ما رچ کرنے کا حق نہیں ہے ۔ گویا جب تک عدالت اعظمیٰ سے جواب صاف ہو گاتب تک لا نگ ما رچ سے جا ن چھٹی رہے گی لیکن حقائق کہتے ہیں کہ عمر ان خان کو سیاسی طور پر قرار نہیں ہے ، اصول ہے کہ بیکا ر مت بیٹھ بخئیے ادھڑ ادھڑ کے سیا کر ، چنا نچہ ان کو اب تک بخئیے تو ادھڑتے تو دیکھا ہے پر کچھ سیتے نہیں پا یا ۔بے کا ر بیٹھنے سے اجتنا ب کر تے ہوئے انھو ں نے ایک نجی ٹی وی کو انٹر ویو دے ڈالا جس کے اینکر پر سن کی اپنی گفتگو یہ جتارہی تھی کہ اس کا لہجہ وہی ہے جو کپتان کا ہے ۔ نجی ٹی وی کو دئیے گئے اپنے انٹرویو میں سابق وزیر اعظم نے ملک کے تازہ حالا ت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ دراصل اسٹیبلشمنت کا مسئلہ ہے اگر اس وقت اسٹیبلشمنٹ صحیح فیصلہ نہیں کرے گی تو وہ لکھ کردینے کو تیا ر ہیں کہ یہ بھی تباہ ہو ں گے ، اورفوج سب سے پہلے تباہ ہوگی کیو ںکہ ملک دیو الیہ ہو گا اپنے انٹرویو میں عمر ان خان کا کہنا تھاکہ ان لوگوں کو اقتدار سے نہیںنکا لا توملک کے نیو کلئیر اثاثے چھن جائیں گے اور درست فیصلے نہ کیے گئے تو پا کستان تین ٹکڑوں میں بٹ جا ئے گا ۔ اللہ شیطان کے کان بہر ے رکھے ۔بات یہ ہے تیس سال پی پی اور مسلم لیگ ن کی ہی حکمر انی پا کستان میں رہی ہے نہ تو پا کستان دیو الیہ کی طرف بڑھا اورنہ کبھی پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے لیے کوئی خطرہ پیدا ہو ا توا ب کیسے یہ سب ہوجائے گا مسلم لیگ اور اس کے حواریو ںکو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اقتدار سنبھا لے کہ کپتان نے خطرے کی گھنٹی بجا دی وہ بھی انتہائی ہو لناک انداز میں ۔ انھیں یہ بھی بتا دینا چاہیے تھا کہ پا کستان کو دیو الیہ کے کنارے لا کھڑا کس نے کیا ہے ، ان کے اقتدار سے پہلے ایسا خطر ہ کیو ں نہ تھا اقتدار کی کنجی چھین جانے کے بعد آپ سے آپ خطرے نا ک کیسے بن گئے ۔ اسٹبلشمنٹ کے بارے میں پی ٹی آئی کا کیا رویہ رہا ہے وہ بھی کھلی کتاب ہے ۔ اس وقت پی ٹی آئی کی اقتدار سے محرومی کی جو کیفیت ہے وہ بھرانی سی ہے چنانچہ ابھانا کی حالت میں منہ کچھ بھی نکال دینا ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا انھیں تو بس اقتدار کی چاٹ لگی ہوئی ہے ، وہ زما نہ بھی یا د ہے جب کے پی کے میں نیشنل پارٹی کے بارے میں کیا کیا چوٹ نہیںلگائی جاتی تھی ، ان کے کا رکنو ں اور لیڈر شپ کو جیلوں میں غدار غدار کا نعرہ لگا کر عقوبت خانوں میں بند کر دیا جاتا تھا ۔ا ن پر اٹک پل پر زنجیرلگانے کا جھوٹا الزام لگا کر بغاوت کا مقدمہ چلا یا گیا ، ملک دشمن قرا ردیا گیا مگر کسی نے بھی نیشنل پارٹی کے جو اب اے این پی کے نا م سے متحرک ہے لیڈ ر سے ملک توڑنے کا جملہ تو بڑی بات ہے ایک آدھ لفظ نہیں سنا انھو ں نے بے جا طور پر سیاسی مخالف حکومت کی سختیا ں برداشت کیں کبھی نہیں کہا کہ ہم پر ظلم نہ روکا گیا تو ملک کے ٹکڑے ہو جائیں گے ۔ انھو ں نے ملک سے علیحیدگی کا گما ن تک پیش نہیں کیا ۔بلکہ ملک کی سلا متی کی بات کی ، حتیٰ کہ بھٹومرحوم کے دور میں بلو چستان کی منتخب قیا دت کوبھی غداری کے الزام میںجیلو ں میںجھو نک دیا گیا تب بھی کسی لیڈر نے ملک کے ٹکڑے ہو نے کی بات نہیں کی جب و ہ جیل سے جنرل ضیاء الحق کے دور میں رہا ہوئے تب بھی انھوں نے اس ظلم وستم کے باوجو د پاکستان کی سیا ست و استحکام کی بات کی اور اسی کی بنیا د پر سیا ست میں حصہ لیا ۔خان عبدالولی خان کو تو جیل میں ایسی ایسی اذیتیں پہنچائی گئیں کہ ان کی ایک آنکھ تک ضائع ہوگئی لیکن ولی خان جیسے معتبر وثقاہت پسند رہنماء اس ظلم وزیا دتی پر اُف تک نہ کی ، جب بھٹو مرحوم نے کے پی کے اور بلوچستان میں جمعیت العلمائے اسلام اور اے این پی کی مخلوط حکومتوں کو برطرف کر دیا تب بھی مفتی محمو د ، خان عبدالولی خان ، غوث بخش بزنجو ، عطااللہ مینگل ، خیر بخش مر ی جیسی بڑ ی بڑی سیا سی ہستیو ں نے اپنا حق احتجاج پر امن طور پر استعمال کیا ، ان کے احتجاج میں کسی کی چھُنگلی تک زخمی نہ ہوئی ۔دکانداروں پر کوئی مصیبت نہ پڑی کوئی دھکم پیل نہ ہوئی ، ملک کے لیے کوئی خطرے کی گھنٹی نہیں بجی ۔کیا کپتان بتا سکتے ہیں کہ ولی خان جیسی سیا سی بصارت رکھنے والی آج کوئی شخصیت مو جو د ہے ، جما عت اسلامی نے بھی بہت سختیا ں برداشت کیں ختم نبوت رسالت ۖتحریک کے موقعہ پر لاہو ر میں ما رشل لا لگا دیا گیا ۔ اور مولا نامودودی اور مولانا عبدالستا ر نیا زی کو گرفتار کر کے زندان میں ڈال دیا گیا مارشل لا عدالت نے پہلی بار پاکستان کی سیا سی قیا دت کو سزائے مو ت سنائی یہ صعوبتیں جما عت اسلامی نے برداشت کیں مگر ملک کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی بات نہیں کی ، جماعت اسلا می نے صدر ایو ب کے دور میں بھی اور پھر بھٹو مرحوم کے دور میں سب سے زیا دہ صعوبتیں برداشت کیں لیکن ان کی حبّ الوطنی ہر شک وشبے سے بالا تر رہی ۔ اورتواور پاکستان کا سب سے بڑا غدار شیخ مجیب الرّحما ن کو کہا جا تا ہے پلٹن میدان ڈھاکا میں جب اس نے تاریخی جلسہ منعقد کیا اس وقت کہا جا رہا تھا کہ مجیب الرّحما ن بنگلہ دیش کا اعلا ن کردے گا مگر اس نے پوری تقریر میں اشارةًبھی ذکر نہیںکیا صرف بنگالیو ںکے حقوق کی بات کی یحیٰ اسے گرفتا ر کر لایا جب بھٹونے مجیب کو رہا کیا تو پہلی مرتبہ شیخ مجیب نے لندن پہنچ کر بنگلہ دیش کانام اپنی زبان سے ادا کیا وہ بھی اس کی مجبوری بن گیا تھا اگر وہ ایسا نہ کرتا توپھر اس کا ٹھکا نا کہیں نہ ہوتا ۔

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت