نفع نقصان کی باتیں نہیں جچتی ہم کو

رات کو لگ بھگ دو بجے جب زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے تو اخبارات تو ظاہر ہے کب کے پریس جا کر چھپائی کے مراحل طے کر رہے تھے اس لئے آج جب یہ کالم آپ کی نظروں سے گزرے گا تو زلزلے کی تفصیلی خبریں بھی تمام اخبارات میں آپ پڑھ رہے ہوں گے ‘ ہم نے اپنی پوتیوں کو جو گرمی کی چھٹیوں کی وجہ سے بے فکر ہو کر کہ صبح سکول تو جانا نہیں اس لئے وہ رات گئے تک کارٹون چینلز دیکھ کر نہ صرف جی بہلاتی ہیں بلکہ ہماری نیند پر بھی اثر انداز ہوتی رہتی ہیں ‘ لاکھ سمجھایا کہ بچہ لوگ ہمیں تھوڑا سا آرام بھی چاہئے کہ پھر علی الصبح اٹھنا ہوتا ہے ‘ اور بعد میں کالم لکھنے کی ذمہ داری بھی ادا کرنا ہوتی ہے مگر آج کی نوجوان نسل کو ان کے بڑے قابو نہیں کر پا رہے چہ جائیکہ یہ ”یاجوج ماجوج” کی سی چھوٹی سی نل ‘ یعنی چھ سات سال سے لیکر دس بارہ سال کے بچے بچیاں ‘ اللہ کی پناہ ‘ مان کر ہی نہیں دیتی اور ایک ایک کارٹون درجنوں بار دیکھنے کے باوجود اسے ندیدے بن کر دیکھتی ہیں جیسے پہلی بار دیکھ رہی ہوں ‘ یا پھر سکول کے نصاب میں اساتذہ نے ان کو یہ کارٹون ازبر کرنے کا ”ٹاسک” دے رکھا ہو ‘ اب بچے سکول کے کام کو ٹاسک کہتے ہیں ہمارا زمانہ تھا تو ہم اسے سکول کا کام کہتے تھے انگریزی سے نابلد جو ہوتے تھے اے بی سی ہمیں استاد مکرم نے چوتھی جماعت میں پڑھانی شروع کی تھی جبکہ ساتھ ہی رومن سکھائی جس کا آج بھی بہت فائدہ مل رہا ہے بہرحال بات زلزلے کی ہو رہی تھی ‘ جب حالات سنبھلے تو ٹی وی چینلز پر خبروں سے رجوع کیا ‘ ابتداء میں پشاور اور اس کے گرد و نواح اور بعد میں پورے خیبر پختونخوا میں زلزلے کے جھٹکوں کی خبریں آنا شروع ہوئیں ‘ اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوتے ہوئے نہ صرف ملک بھر کے مختلف شہروں ‘ قصبوں ‘ دیہاتوں میں زلزلے کے جھٹکوں کی ا طلاعات آتی چلی گئیں بلکہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ ساتھ انڈونیشیا تک یہ سلسلہ دراز ہوتا ہوا معلوم ہوا ‘ زلزلے کے جھٹکوں کی شدت پانچ اعشاریہ ایک تھی ‘ یعنی ریکٹر سکیل پر ناپی جانے والی شدت سے اندازہ ہوا کہ صورتحال کی نوعیت کیا تھی ‘ اس پر ہمیں ایک بار پھر ماضی میں جھانکنا پڑا جب ہمارے لڑکپن کے دور میں زلزلے کے جھٹکوں کی شدت کے حوالے سے جو پیمانہ ہوا کرتا تھا اسے ”رچرڈ سکیل” کہا جاتا تھا پتہ نہیں وہ کیا تھا اور اب یہ ریکٹر سکیل کیوں کہلاتا ہے محکمہ موسمیات والے ہی اس کی توجیح پیش کر سکتے ہیں ‘ ممکن ہے یہ پیمانہ دنیا بھر میں اعشاری نظام رائج ہونے کے بعد لاگو کیا ہو اور اس سے پہلے رچرڈ سکیل ہی ناپا جاتا ہو اور اعشاری نظام کے بعد بقول شاعر کہنا پڑ گیا ہو کہ تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ ‘ اس زمانے میں کلو کا نظام بھی رائج نہیں ہوا تھا اور برصغیر میں قدیم زمانے سے سیر ‘ دھڑی ‘ من ‘جبکہ سونے چاندی کے لئے تولہ ماشہ وغیرہ جبکہ آج کے میٹر کی بجائے گز کا پیمانہ رائج تھا ‘اسی طرح موسم کی شدت کے حوالے سے عام طور پر فارن ہائیٹ کا کلیہ مستعمل تھا مگر اعشاریہ نظام رائج ہونے کے بعد گرمی ‘ سردی کے لئے سینٹی گریڈ (جسے اب سیلسیئس کہتے ہیں ) کا استعمال شروع کر دیا گیا ہے ابتداء میں جب ملک میں اعشاری نظام رائج کیا گیا تو عوام کو اسے سمجھنے میں بہت دقت ہوتی تھی ‘ اور پی ٹی وی (واحد چینل تھا) پر خبرنامہ کے آخر میں موسم کی خبروں کے دوران دونوں یعنی فارن ہائٹ کے ساتھ ابتداء میں سینٹی گریڈ اور پھر بتدریج اسے سیلسیئس انائونس کیا جانے لگا جسے کئی سال بعد صرف آخر الذکر پیمانے میں مکمل طور پر تبدیل کرکے فارن ہائیٹ کو چھٹی کرادی گئی ۔ ‘ برصغیر میں ابتدائی طور پر بنیادی اکائی پیسہ ‘ آنہ ‘ دونی’ چونی ‘ آٹھنی ‘ روپیہ وغیرہ استعمال کئے جاتے تھے جبکہ اعشاری نظام کے بعد پیسہ ‘ دو پیسے ‘ پانچ پیسے ‘ دس پیسے ‘ 25پیسے ‘ پچاس پیسے اور پھر روپیہ ‘ مگر آج کی نسل تو اس بارے میں بالکل ہی بے خبر ہے ‘ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اب تو فقیر کو دینے کے لئے بھی دس روپے سے کم کیا کوئی دیتا ہے کہ روپے کی قدر تو ہم نے نہ جانے کہاں گم کر دی ہے ۔ یعنی بقول اتباف ابرک
نفع نقصان کی باتیں نہیں جچتی ہم کو
ہم نے کب یار ترے ساتھ تجارت کی ہے
بات بہت دور نکل گئی ہے حالانکہ ہم نے کالم کے لئے جو موضوع چنا تھا وہ زلزلے اور بارش کے حوالے سے تھا کہ گزشتہ روز بارش نے بھی وقت سے پہلے ساون کی ابتداء کرکے گرمی کی شدت کو بہت حد تک کم کر دیا تھا یہاں تک کہ گھروںمیں ایئر کنڈیشنرز تو ایک طرف لوگوں نے روم کولر تک بند کر دیئے تھے اور رات کو تو اس قدر خنکی ہوئی کہ پنکھے بھی یا تو مکمل طور پر بند کر دیئے گئے یا پھر ان کی رفتار کم کر دی گئی ‘ مگر کم بخت مچھروں نے یلغار کرکے کم از کم پنکھوں کو چالو رکھنے پر مجبور کر دیا تھا ‘ مچھر مار سپرے بھی اب وہ کام نہیں کرتے جو چند سال پہلے کرتے تھے ‘ شاید اب مچھر بھی ان مختلف قسم کے سپرے سے دوستی کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں ‘ بہرحال بارش کا جو سلسلہ گزشتہ روز رات سے شروع ہوا تھا تو کل سارا دن چلتا رہا کبھی ہلکی بارش اور کبھی چھاجوں برس کر دل کا غبار نکالنے پر مصر اس بارش نے موسم کو بہت حد تک خوشگوار ضرور بنا دیا تھا ‘ عباس تابش کا ایک خوبصورت شعر اسی حوالے سے یاد آتا رہا
تو ہے ست رنگی دھنک اور میں گلی کوچوں کی گرد
تو کہاں بارش سے پہلے ‘ میں کہاں بارش کے بعد
زلزلے اور بارش کے اس مکس مسالہ نے ایک عجیب سماں پیدا کر دیا تھا خوف کی لہریں تھیں کہ ذہنوں پرچھائی ہوئی تھیں ‘ بارشوں کی پیشگوئی تو محکمہ موسمیات والے کئی روز پہلے بھی کر دیتے ہیں جنہیں آپ اپنے سمارٹ فون کی سکرین پر بہ آسانی دیکھ سکتے ہیں ‘ البتہ زلزلے کے بارے میں پیش گوئی کا پیمانہ انسان(شاید)آج تک ایجاد نہیں کر سکا اور یہ ”علم” صرف چرند پرند کو اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے کیونکہ گھوڑیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ زلزلے کی آمد سے پہلے انہیں خبر ہو جاتی ہے ان کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور ان پر گھبراہٹ طاری ہو جاتی ہے ‘ اسی طرح پرندے پریشانی میں درختوں سے اڑ کر فضا میں چکر لگاتے ہوئے چیخ و پکار شروع کر دیتے ہیں ‘ یعنی زلزلے کے بارے میں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ
تصور ‘ خواب ‘ دروازے ‘ دریچے
کوئی آئے تو کتنے راستے ہیں

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت