مشرقیات

اگر تعلیم کسی معاشرے کو بہتر نہ بنا سکے تو محض شرح خواندگی میں اضافے کا کوئی فائدہ نہیں۔ملکی تعمیر و ترقی کی پالیسیاں بنانے والوں ، ملک کے چھوٹے بڑے اداروں،عدالتوں اوردرسگاہوں میں ایک بھی ناخواندہ موجود نہیں مگر سب کچھ آپ کے سامنے عیاں ہے۔ اسی لئے توکوئی ناخواندہ ابھی تک نیب زدہ نہیں ۔ ہم اگر اپنے زوال کے پس منظر میں ماضی کی تاریخ دیکھیں تو ہمارے انگریز آقاؤں نے تعلیم کے ذریعے لوگوں کو ذہنی غلام بنایا۔برطانوی نمائندے میکالے نے ایک نیا تعلیمی نظام پیش کیا جس کا بنیادی مقصد فرمانبردار لوگوں کا ایک ایسا گروہ تیار کرنا تھا جو ذہنی طور پر غلام ہو، جو ہر عمل میں حکومتِ وقت کا ساتھ دے اور جو تصور میں بھی اختلاف رائے کی جرأت نہ کر سکے۔تعلیم ذہن سازی میں ایک بڑا مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔ اسی لئے معاشی اعتبار سے آسودہ پڑھا لکھا طبقہ جواپنی پہچان اب سول سوسائٹی کے نام سے کر رہا ہے، ہمیشہ مقتدر طبقے کو اپنی خدمات پیش کر کے تعلیم کے ذریعے لوگوں کے ذہن کو قا بو کرنے اور اپنا تسلط جمانے میں کامیاب رہتا ہے۔ جامعات سے تعلق رکھنے والے میرے یہ دوست تو اس علم کی صدی کے نئے تقاضوں کا سامنا نہ کرنے اور تعلیمی معیار کی پستی کا گلہ ضرورکرتے ہیں مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ تعلیمی درسگاہوں میں پڑھائی کا وہی پرانا نظام رائج ہے جو نسل در نسل محض سند فراہم کیے جا رہا ہے، جس میں علم کو جامد چیز اور استاد کوواحد ذریعہ سمجھا گیا ہے۔ ہمارا یہ روایتی تدریسی نظام اب فرسودہ ہوتا جا رہا ہے جو کسی نئی تحقیق کا متحمل نہیں ۔تعلیم کبھی کسی حکومت کی اولین ترجیح نہیں رہی ۔اس نئی صدی میں طالب علموں کو آگے بڑھنے کی مہارتیں درکار ہیں اور ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جو معاشرے کے ساتھ ربط رکھتی ہو ۔ صرف شرح خواندگی میں اضافہ کچھ نہیں کر سکتا بلکہ یہ تعلیمی معیار ہے جو معاشرے کی معاشی اورسماجی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پائیدار ترقی کا تصور ایک تعلیم یافتہ معاشرے کے بغیر ادھورا ہے۔تعلیم ایک معاشرے کو پڑھے لکھے’ کارآمد سوچنے والے افراد کا مجموعہ بنا سکتی ہے۔ یہ تعلیم ہی ہے جو ہمیں نظریات’ تصورات اور اقدار سے آشنا کرتی ہے۔تعلیم کے ایک اعلیٰ اور جامع تصور میں مہارت کے ساتھ ساتھ رویوں کی نشو و نما بھی شامل ہے۔ ہمیںان عوامل کا بھی جائزہ لینا ہے جو تعلیم کے معیار میں بہتری لا سکیں۔ اس میں تعلیمی ڈھانچہ، نصاب اور امتحانی نظام شامل ہے۔ یہ بھی لازمی ہے کہ اساتذہ کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ان میں تنقیدی اور تخلیقی سوچ کا اجاگر کیا جانا بہت ضروری ہے۔ اسی طرح طلبا میں آزادی فکراور تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارا جائے۔ یہی تعلیم کا اہم مقصد ہے جو ہمارے ہاں ناپید ہے۔ طلبہ کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ ایک باہمی مکالمے میں شریک ہو سکیں اور اپنی گم گشتہ پہچان اور آزادی حاصل کر سکیں۔ ہمارے طلبہ ذہنی طور پر اس قدر باثروت بن جائیں کہ وہ نہ صرف علم کا ادراک کریں بلکہ نئی اور مختلف صورت حال میں اس کا اطلاق بھی کر سکیں اور تعلیمی اداروں سے فارغ ہو کر وہ محض نوکریوں کے حصول میں نہ لگ جائیں بلکہ اپنی تنقیدی سوچ اور جراتِ فکر کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے کی فرسودہ رسومات کے خلاف آواز بلند کر سکیں۔ تعلیم کومحض ڈگری کے حصول اور کسی شعبہ میں مہارت حاصل کرنے تک محدود نہ کیا جائے بلکہ اسے تو طالب علم کی انفرادی زندگی اور پھر معاشرے میں تبدیلی کا ذریعہ ہونا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار