خدا کے ساتھ جنگ کو دعوت نہ دیں

اسٹیٹ بینک اور4 نجی بینکوں نے سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے، حالانکہ25اپریل2022کو سود کے خلاف شرعی عدالت کا فیصلہ آیا تو اسٹیٹ بینک کی طرف سے اس کا خیر مقدم کیا گیا تھا، تاہم اب اپیل میں وزیر خزانہ، قانون، چیئرمین بینکنگ کونسل اور دیگر فریقوں نے مؤقف اختیار کیا کہ فیصلے میں سپریم کورٹ ریمانڈ آرڈز کے احکامات کو مد نظر نہیں رکھا گیا، لہٰذا فیصلے کے خلاف اپیل کو منظور کرتے ہوئے متعلقہ نکات کی حد تک ترمیم کی جائے۔
اسٹیٹ بینک کی سرپرستی میں4نجی بینکوں کا وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مذکورہ بینکوں کو وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ قبول نہیں ہے، اور وہ فیصلے پر عملدرآمد نہیں چاہتے ہیں، سودی بینکاری والے بینک سمجھتے ہیں کہ فیصلے پر عمل درآمد کی صورت میں انہیں اربوں روپے کا نقصان ہو سکتا ہے، سو وہ اس فیصلے پر اعتراضات اٹھا کر کیس کو ایک بار پھر داخل دفتر کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ30سال قبل بھی سود کے خلاف فیصلہ سنایا گیا مگر اس پر اعتراضات لگا کر چیلنج کر دیا گیا، یوں دیکھا جائے تو گزشتہ30برس سے سود سے متعلق کیس عدالتوں میں زیر بحث ہے، اس قدر طویل دورانیہ خدشات کو تقویت دیتا ہے کہ ایسا کیا ہے کہ عدالتیں سود سے متعلق کیس کا حتمی فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں؟ سٹیٹ بینک کی طرف سے اسلامی بینکاری کی حوصلہ افزائی سے محسوس ہو رہا تھا کہ ملک میں بہت جلد سودی لین دین اور بینکاری کا خاتمہ ہو جائے گا مگر عجب معاملہ ہے کہ ایک طرف اسٹیٹ بینک ملک کے مالی شعبے میں اسلام کے احکامات کی تعمیل کا دعویدار ہے جبکہ دوسری طرف وفاقی شرعی عدالت کی طرف سے سود کے فیصلے کے خلاف صف اول میں کھڑا ہو کر فیصلے پر تحفظات کا اظہار بھی کر رہا ہے، یہ صورتحال عکاسی کرتی ہے کہ نجی بینک اسٹیٹ بینک کی سرپرستی میں سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو ایک بار پھر لٹکانا چاہتے ہیں تاکہ سودی بینکاری کو نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام قرار دیا ہے، سورہ بقرہ میں ارشاد فرمایا: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سود میں باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان جنگ پر خبردار ہو جائو۔ اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لئے اصل مال)جائز( ہیں۔ نہ تم خود ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔
کسی جرم یا گناہ کو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ سے تعبیر نہیں کیا گیا، سود کے بارے یہ انتہائی الفاظ استعمال ہوئے ہیں تو اس کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، وفاقی شرعی عدالت کی طرف سے سود کے خلاف فیصلے کی صورت میں ہمارے لئے توبہ کا دروازہ کھلا ہے ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ سود کی حرمت کی دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سرمایہ سکڑ کر چند افراد تک محدود ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے، پاکستان کے معروضی حالات میں دیکھا جائے تو سودی لین دین کی وجہ سے سرمایہ چند افراد یا خاندانوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، اس کے برعکس اسلام ایسا معاشی نظام فراہم کرتا ہے جس میں سرمائے کی گردش ہوتی ہے، کاروبار پھلتا پھولتا ہے جو لوگوں کے روزگار کا باعث بنتا ہے۔ سودی نظام سے سب سے زیادہ فائدہ چونکہ بینکوں کو ہوتا ہے اس لئے بینک نہیں چاہتے کہ سود کو ختم کر دیا جائے، یہ حقیقت ہے کہ اکثر لوگ اپنا سرمایہ طویل عرصے کیلئے فکس ڈپازٹ کے طور پر بینکوں میں رکھوا دیتے ہیں، بینک دراصل کسٹمرز کے سرمائے پر کاروبار کرتے ہیں اور اصل منافع میں سے دوچار فیصد سرمائے کے مالکان کو دیکر باقی منافع خود ہڑپ کر جاتے ہیں، دیکھا جائے تو سودی بینکاری کے پس پردہ ان لاکھوں کسٹمرز کا سرمایہ ہوتا ہے جو معمولی نفع کیلئے بینکوں میں اپنا سرمایہ جمع کرا دیتے ہیں، سودی بینکاری والے بینک وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو اس لئے بھی چیلنج کر رہے ہیں کیونکہ کسٹمرز جب اپنا سرمایہ بینکوں سے نکال لیں گے تو ان کا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا۔ سودی بینکاری کا سب سے بھیانک پہلو یہ ہے کہ یہ کسٹمرز سے سرمایہ اکٹھا کرتے ہیں اور آگے کئی گناہ اضافے پر سود کیلئے دے دیتے ہیں اسے آسان لفظوں میں یوں سمجھیں کہ کسٹمرز کو دو فیصد ادا کرتے ہیں جبکہ آگے سے20فیصد سے زائد تک سود وصول کرتے ہیں، جس کا سب سے زیادہ مالی فائدہ بینکوں کو ہوتا ہے۔ سودی بینکاری کا یہ رویہ دراصل دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کا ذریعہ بنتا ہے جو سماج کے اندر امیر اور غریب کی تفریق پیدا کرتا ہے۔اسلام نے کاروبار کو حلال قرار دیا جبکہ سود کو حرام قرار دیا تو اس کے پس پردہ فلسفہ یہ ہے کہ کاروبار سے سرمائے کی گردش ہوتی ہے جس سے کئی لوگوں کو مالی فائدہ ہو سکتا ہے، اس کے برعکس سود میں سرمایہ منجمد ہو کر رہ جاتا ہے، چونکہ بینکوں کا دار و مدار سرمائے پہ ہے لہٰذا وہ سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو لٹکا کر سودی لین دین کو جاری رکھنا چاہتے ہیں ایسی صورتحال میں ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بینکوں کے مفاد کی بجائے22کروڑ عوام کے مفاد کو ترجیح دیں اور ایسا کوئی اقدام نہ اٹھایا جائے جو خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کا موجب بنتا ہو۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''