سود کی لعنت

ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی

پی کے 7کبل سوات کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدوار کی اے این پی کے امیدوار جسے چھ اتحادی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی کامیابی بڑا سیاسی معرکہ سر کرنے کے مترادف ہے ۔

اے این پی کے امیدوار کو نون لیگ ‘ پیپلز پارٹی ‘ جے یو آئی ‘ جماعت اسلامی ‘ قومی وطن پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی حمایت بھی حاصل تھی ان تمام جماعتوں نے اے این پی کے امیدوار کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا تحریک انصاف کی کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ محمود خان کا کہنا تھا کہ ضمنی الیکشن عام انتخابات کا ٹریلر ہے ۔عمران خان کے موقف کی جیت ہوئی ہے سوات وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان ‘ سابق وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید اور وزیر محنت وافرادی قوت شوکت علی یوسفزئی جیسے مرکزی اور دیگر رہنمائوں اور اراکین اسمبلی کا علاقہ ہے لیکن دوسری جانب اے این پی بھی علاقے میں مقبول عام جماعت رہی ہے اور موجودہ نشست اے این پی کے رکن اسمبلی کی وفات سے خالی ہوئی تھی ۔ تحریک انصاف کا حکمران جماعت ہونے کے باوجود ضمنی انتخابات میں کامیابی کا ریکارڈ زیادہ اچھا نہیں رہا ہے البتہ جب اسے موجوں اور تھپیڑوں و شدید طغیانی کا سامنا ہوا تو شناوری ثابت کرکے کم از کم خیبر پختونخوا سے ایک مثبت اور اچھا تاثر دیا ہے مشاہدے سے ثابت ہے کہ سیاسی جماعتیں مشکلات کا شکار ہو کر ہی بقاء کی جنگ لڑنا سیکھ جاتی ہیں جس کی پی ٹی آئی کی قیادت سے لے کر کارکنوں کی صفوں تک میں کمی تھی اب واسطہ پڑا ہے تو اس کا تجربہ اور کامیابی کی جتن کرنا فطری امر تھا جس میں ان کو کامیابی ملی ہے سوات کے ضمنی انتخابات میں اگرچہ حکمران جماعت کی کامیابی کے کئی جواز تھے جن سے قطع نظر اصل بات ان کی جیت ہی نہیں بلکہ اے این پی کی نشست اور جملہ جماعتی اتحاد و تعاون کے باوجود اس نشست پرناکامی بھی ہے جس سے اس امر کا اعادہ ہوتا ہے کہ سندھ میں ناکامی کی شکار پی ٹی آئی اب بھی خیبر پختونخوا کی مقبول جماعت ہے یہ کامیابی جاری حالات میں ایک نئے حوصلے کا باعث ضرور ہے جس کے بعد پنجاب کا مشکل میدان درپیش ہے جہاں تحریک ا نصاف کی عام انتخابات کی طرح کامیابی کی توقع نہیں کی جا سکتی لیکن پنجاب میں چند ایک نشستوں پر کامیابی سے پی ٹی آئی کے گراف کے برقرار ہونے کا تاثر ملے گا اور اگر دوسری صورت بھی درپیش ہو تو مناسب یہ ہو گا کہ احتجاج اور واویلا کرنے کی بجائے بلکہ دیگر تمام بیانیہ جات و الزامات جو لاحاصل ٹھہرتے نظر آرہے ہیںان سے صرف نظر کرتے ہوئے تحریک انصاف کی قیادت کو پنجاب ‘ سندھ اور بلوچستان میں نئی صف بندی اور آئندہ انتخابات کی تیاریوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ایک ایسے وقت جب ملک کی ساری قابل ذکر سیاسی جماعتیں مشکلات کا شکار حکومت کا حصہ ہیں اور معاشی مسائل کے بوجھ تلے حکومت و سیاست دبائوکا شکار نظر آتی ہے تحریک انصاف کو اپنی حکومت کے خاتمے کے ماتم سے اب نکل آنا چاہئے اور ایسا بیانیہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے اور ایسا مربوط لائحہ عمل اختیار کرنی چاہئے کہ تحریک انصاف تمام ترمشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود بھان متی کے کنبے کا عوامی اور انتخابی سطح پر مقابلہ کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہ ہو بلکہ عوام کی حمایت سے اپنی مقبولیت کو ثابت کرے۔ تحریک انصاف کو بطور حکمران جماعت بھی سب سے بڑا خطرہ اپنے اندر ہی سے درپیش تھا اور اب بھی تحریک انصاف کی قیادت جماعت کو متحد رکھ کر پائی اور عوامی حمایت کو سنبھال پائی تو مقابلہ زوروں کا ہو گا لیکن مشکل ا مر اور چیلنج اب یہی نظر آتا ہے کہ مجھے اپنوں نے لوٹا غیروں میں کیا دم تھاوالی صورتحال سے دو چار ہے بلکہ زیادہ مشکلات کا شکار ہونے کے مکانات ابھر رہے ہیں ان حالات میںضرورت اس امر کی ہے کہ پی ٹی آئی سب سے پہلے اپنی صفوں پر نظر ڈالتے ہوئے صف بندی کرنے اور مخلص و یرینہ کارکنوں کو آگے لانے اور ناراض کارکنوں کو منانے سے نئے عزم کے ساتھ دیوار سے سر ٹکرانے کی بجائے آئندہ عام انتخابات خواہ وہ چھ ماہ بعد ہوں یا پھر مقررہ وقت پر اس کی بھر پور تیاری کرنی چاہئے سیاسی حالات کو اعتدال پر رکھنا جہاں حکومت اور ملک و قوم کے مفاد میں ہے وہاں تحریک انصاف کے لئے محاذ آرائی کی بجائے صف بندی پر توجہ اچھی سیاسی حکمت عملی ہو گی۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار