ہوشربا مہنگائی اور بڑھتے جرائم

حکومت آجکل عوام پر ٹیکس لگانے کے لئے نئے نئے نام اور نئی نئی اصلاحات ڈھونڈرہی ہیں تاکہ انہی پرکشش ناموں اور اصطلاحات کو عوام کے سامنے ایسے دلکش انداز میں پیش کیا جاسکے گویا یہ ان کے لئے خوشی کی کوئی نئی نوید ہو ۔عوام سپر سٹار اور سپر مین کی اصطلاحات کو تو سنتے آرہے ہیں لیکن سپر ٹیکس کی اصطلاح سے ایسا تاثر دیا جارہا ہے جیسے یہ عوام کے لئے کوئی سپر خبر ہو۔کہاجارہاہے کہ اسی مد میں اکٹھی کی جانے والی رقم غریبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائیگی لیکن دوسری طرف اسی غریب کی چمڑی ادھیڑ کر امیروں کے لئے پوشاک کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ اسی غریب کے لئے اشیائے خوردرونوش سے لے کر جان بچانے والی ادویات تک مہنگی کردی گئی ہیں۔پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔بجلی اور گیس کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں لیکن حکومتی وزرا عوام کو جھوٹی تسلیاں دے دیکرسب اچھا کرانے کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔عوام رل رہے ہیں۔جہاں دیکھوعوام حکومت سے مایوس اور
بیزار نظر آرہے ہیں ۔ایک غریب مزدور کی دن بھر کی دیہاڑی مشکل سے سات آٹھ سو روپے ہوتی ہے وہ بھی اگر دیہاڑی ملے تو۔ اسی اوسط سے اگر ایک مزدور مہینہ بھر بلا رکے کام کریں تو بمشکل پندرہ سے بیس ہزار تک کمالے گا۔وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے گزارش ہے کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے جوہر دکھاکر کسی طرح انہی پیسوں میں ایک دیہاڑی دار اور روزانہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور کیلئے بجٹ تو بناکر دیکھ لیں۔ ایک مزدور اسی بجٹ میں اپنے بچوں کو کھلائیں پلائیں یا ان کے کپڑوں کا خیال رکھیں۔ ان کی صحت پر توجہ دیں یاان کی تعلیم کا بندوبست کریں۔ بچوں کی شادی کی فکر کریں یا اپنی غمی خوشی پر خرچ کریں۔عید اور محرم کو تو چھوڑیں لیکن اگر انکے گھر میں کوئی حادثہ پیش آجائے تو اسکے لئے پیسہ کہاں سے بچاکے رکھیں۔ ان حقائق سے آنکھیں بند کرکے وزیراعظم اور انکی کابینہ کے وزرا عوامی ریلیوں اور جلسوں میں گلہ پھاڑ پھاڑکر اپنے کپڑے بیچ کر عوام کو آسان نرخوں پرروٹی مہیا کرنے کے وعدے تو کرتے ہیں لیکن اگلے ہی دن بجلی ، گیس اور پٹرول بم گراکر عوام کے منہ سے ان کا نوالہ بھی چھین لیتے ہیں۔جارج واشنگٹن نے کیا خوب کہا تھا کہ آپ کچھ لوگوں کو زیادہ عرصے کے لئے بیوقوف بناسکتے ہیں، زیادہ لوگوں کو کچھ عرصے کے لئے بیوقوف بناسکتے ہیں لیکن سارے لوگوں کو ساری عمر کے لئے بیوقوف نہیں بناسکتے۔ آپ ان لوگوں کو کب تک بیوقوف بناتے رہینگے۔ عوام کی قوت برداشت اب جواب دے رہی ہے ۔حکمرانوں کو جان لینا چاہئے کہ انہی جھوٹی تسلیوں کے پیچھے ایک خطرناک سانپ ڈسنے کے لئے انگڑائیاں لے رہا ہے اور اگر وہ سانپ اپنے بل سے باہر آگیا تو پھر وہ بڑے چھوٹے کی تفریق کئے بغیر سب کو ڈسے گا۔ مثلاً ایک آدمی اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتے دیکھ کر ان کو کھلانے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ وہ ڈاکہ بھی ڈال سکتا ہے اور اپنے بچے کو موت سے بچانے کے لئے کسی کا خون بھی کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں حالیہ معاشی بحران اور ہوشربا مہنگائی کی کوکھ سے جنم لینے والے جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ پشاور میں اسی نوعیت کے جرائم میں ملوث چار مختلف گینگز کے تقریباً سترہ افراد کو ایک آپریشن کے دوران پکڑا گیا ہے۔ انہی افراد کے قبضے سے ایک خطیر رقم کے علاوہ مختلف ہتھیاروں سمیت وہ سامان برآمد کیا گیا ہے جو انہوں نے مختلف واردات کے دوران لوٹ لیا تھا۔یہ بات
صرف پشاور تک محدود نہیں بلکہ ملک کے تمام چھوے بڑے شہروں کی یہی کہانی ہے۔ گزشتہ رات دارلحکومت اسلام آباد کے سیکٹر آئی الیون تھانہ سبزی منڈی کی حدود میں ایک صحافی نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے گن پوائنٹ پراس وقت لوٹ لیا جب وہ ڈیوٹی سے فارغ ہوکر گھر جارہے تھے۔ اسی رات اسی واقعے سے تقریباً دوگھنٹے پہلے ایک نوجوان طالب علم ضیا الرحمن کو تین ڈاکوئوں نے جی تھرٹین کے مرکز کے بالکل سامنے گن پوائنٹ پر روک کر موبائل فون سے محروم کردیا۔ سبزی منڈی میں دن دیہاڈے دکانداروں کو لوٹنا تو گویا روز کا معمول بن چکا ہے۔ اس واقعے سے ایک دن قبل ملک کے معاشی حب اور دوکروڑ آبادی والے شہر کراچی میں ایک ہی روز دو مختلف واقعات میں تقریباً چار ڈاکوئوں کو لوگوں نے پکڑ کردرگت بناڈالی۔ لوگوں نے ڈاکوئوں کو پولیس اور قانوں نافذ کرنے والے اداروں کو حوالے کرنے کی بجائے خود ہی ان کا بھرکس نکال دیا جس سے ایک ڈاکو تو موقع پر ہی دم توڑ گیا اور دوسرا ہسپتال لے جاتے ہوئے زخموں کی تاب نہ لاکر راستے میں ہی ہلاک ہوگیا۔کراچی میں تو پرس اور موبائل فون چھیننے کے واقعات بہت عام ہیں ۔

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش
مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''

ایک ہی دن کئی درجن کیسز رپورٹ ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھی یہ تعداد ایک ہی دن سینکڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔حکمران ہوش کے ناخن لیں ۔ اگر مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند نہیں کیا گیا تو بد امنی، لاقانونیت اور فتنہ و فساد کا وہ طوفان اٹھ کھڑا ہوگا جو عوام کے سکون کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کے آشیانوں میں بھی آگ لگادے گا۔