اپنا خیال کیجئے

ماحولیاتی آلودگی ‘اس کے اثرات اور پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے تشویش اگرچہ ہماری روز مرہ کی بات چیت کاحصہ نہیں اس کے باوجود اسکی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ سیاست اور سیاستدان ہمارا پسندیدہ موضوع سخن ہیں ۔ شاید اس لئے کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری اتنی طاقتور نہیں ۔ اگر اس کی حالت بہتر ہوتی تو یقینا بھارت کی طرح ہماری توجہ بھی سب سے زیادہ ان ہی کی جانب ہوتی ۔ اب صورتحال ذرا مختلف ہے ۔ ماحولیاتی آلودگی کے اثرات اور ددنیا کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی بات ہمارے لبوں پر ہوتی ۔ یہاں عالم یہ ہے ایک حالیہ گیلپ سروے کہتاہے کہ قریباً58فیصد پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے حوالے سے اب کچھ نہیں ہو سکتا بات اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ اب کسی بھی قسم کا سدباب ممکن ہی نہیں۔ اگر کسی بھی معاملے کے حوالے سے یہ بات سوچی جارہی ہو کہ معاملات میں بگاڑ ایسا بڑھ چکاہے کہ اب اس کا اپائے ممکن ہی نہیں تو یقینا وہ لوگ اس حوالے سے کسی بھی قسم کی کوششیں کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہی نہ ہونگے ۔
پاکستان میں دنیا کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے حوالے سے تشویش کا نہ پایا جانا یا یہ خیال ہوتا کہ اب اس حوالے سے کچھ ہونا ہی ممکن نہیں ‘ صورتحال میں اور بھی پریشانی پیدا کرنے کا باعث ہے ۔ ایک ایسا ملک جہاں قریباً 7000 برفانی جھیلیں اور گلیشیرز موجود ہیں اور اس علاقے کوجوکہ کوہ قراقرم ‘ کوہ ہندو کش اور کوہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں پر محیط ہے جس سے بلاواسطہ چھ ممالک وابستہ ہیں کو دنیا کا تیسرا قطب کہا جاتا ہے ۔ اس علاقے میں گلیشیرز کی صورت میں میٹھے پانی کے ذخائر موجود ہیں ‘ وہ ماحولیاتی آلودگی ‘ جس کا سہرا تو چین ‘ امریکہ ‘ بھارت ‘روس اور یورپی یونین کو جاتا ہے ‘ اس کے اثرات کا شکار ہونے والے ملکوں میں پاکستان پہلے آٹھویں نمبر پرتھا اوراب خطرے کے حساب سے پانچویں نمبر پر ہے اور پھر بھی اس قوم کا کمال یہ ہے کہ ہم نواز شریف ‘ شہباز شریف ‘ بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن کی باتوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ میں آج بھی بھول نہیں سکتی کہ ایک سرسری ملاقات کے دوران جب میں نے احسن اقبال سے سوال کیا تھا کہ سی پیک منصوبے میں چین کو پاکستان سے مربوط ہونا تھا اور یہ ساری تجارتی ٹریفک ‘ گلگت بلتستان کے راستے خنجراب سے ہوتی ہوئی چین میں داخل ہونا تھی پاکستان پر ماحولیاتی آلودگی اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے اثرات کا اس وقت بھی شور تھا تو کیا کوئی حساب لگایا گیا ‘ کوئی اعداد و شمار اکٹھے کئے گئے کہ اتنی گاڑیوں کی آمدورفت کااثر کیا ہوگا؟ تو وہ تقریبا ناراض ہوگئے اور کوئی جواب نہ دیا ۔ ایک ایسا ملک جہاں پانی کے اتنے وسال ہوں اس ملک میں پانی کی قحط سالی ‘ چہ معنی دارد ۔ یہ پانی صرف گلیشیرز کا نہیں ۔ پاکستان میں زیر زمین پانی کی سطح میں بے تحاشہ کمی ہو رہی ہے ۔ اس سب کے باوجود ملک میں تعمیراتی لکڑی کی کھپت کو پورا کرنے کے لئے یوکلسپبٹ لگایاجاتا ہے ۔ جسے عام زبان میں سفیدہ کہا جاتا ہے یہ درخت دوسرے درختوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ پانی استعمال کرتا ہے اور اصل میں یہ آسٹریلیا میں پایا جانے والا درخت ہے ۔ اسی طرح پاکستان میں شوگر ملوں کے مالکان کی مرضی ہے ان علاقوں میں بھی اب گنا کاشت کیا جاتا ہے جہاں پہلے کپاس اگائی جاتی تھی۔ گنے کو بہت پانی درکار ہوتاہے جبکہ اس سے پاکستان کی معیشت کو ایسا کوئی فائدہ نہیں جس کو بنیاد بنا کر یہ قربانی یہ ملک اپنے لئے قابل قبول سمجھے ۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ شوگر مل مالکان اسمبلیوں میں بیٹھے ہوتے ہیں اور کسی بھی قسم کی گرفت ‘ ملکی مفاد کی کوئی بات یا تادیب کی قبول نہیں کرتے ۔ اس کی مثالیں بھی ہم ماضی قریب میں دیکھ چکے ہیں ۔ جہانگیر ترین کی ناراضگی عمران خان کو خاصی مہنگی پڑی اور لوگوں نے بھی کبھی پاکستان کے حوالے سے معاملے کو نہیں دیکھا ۔ کئی لوگوں کو میں نے کہتے سنا کہ عمران خان اپنے ساتھیوں کا خیال نہیں کرتے ۔ بہرحال یہ ایک اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں ۔اس وقت پاکستان ایک شدید خطرے کا شکار ہے اور ہمیں اس حوالے سے غور و غوض کی ضرورت ہے ۔ اس وقت پاکستانی میڈیا کو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔ لوگوں میں یہ آگہی پیدا کرنا کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا سدباب کرنے کا وقت ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوا۔ درخت لگانے اور پھر ان کی حفاظت کرنے میں ہر ایک شخص کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے کیونکہ اگر ہم یہ نہیں کریں گے تو شدید اثرات کا بھی آپ اور میں ہی شکار ہونگے ۔ ملک میں پانی کا قحط ہو گا تو ہم ہی پیاس سے بلکنے لگیں گے ۔ نہ اس کا اثر کسی سیاستدان پر ہو گا اور نہ ہی ان پر جنہوں نے اس ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔ یہ خطرہ آج سے محسوس کرنا بھی ضروری ہے اور اپنے حصے کا کام کرنا بھی ‘ ورنہ اس سے کہیں زیادہ مشکلات ہماری منتظر ہیں۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے