پاکستان…اللہ کی عظیم نعمت

14 اگست مجھ سمیت ہر پاکستانی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل دن ہوتا ہے، میرے والد مکرم کا معمول رہا ہے کہ وہ اس دن ملک کی سلامتی کے لیے ختم قرآن کا اہتمام کرتے ہی اور اجتماعی دعا بھی، پچھلے سال تو جامعہ دارالہدی (مرکزی) دواپل کوہاٹ روڈ بنوں میں باقاعدہ تقریب منعقد کی تھی جس میں قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کے متعلق طلبہ کرام نے بیانات کیے اور والد مکرم نے پاکستان ایک عظیم نعمت ہے کے عنوان پر پر معز اور جامع بیان کیا تھا، جس کے بعد پرچم کشائی کی گئی تھی۔ سچ پوچھیے تو مجھے پرچم کشائی کا منظر سب سے خوب صورت لگا جب پرچم آخری کنارے پہنچا اور کھلتے ہی گل پاشی ہوئی، جس کے بعد والد مکرم حضرت مولانا گل رئیس نقشبندی نے دعا فرمائی۔ اس مرتبہ چونکہ میں ملک سے باہر ہوں تو اس دن کو کچھ زیادہ مِس کیا اور وطنِ عزیز کی نعمت کا احساس شاید وہاں بیٹھ کر اس طرح نہ ہوتا جو یہاں مجھے ہو رہا ہے۔ سچی بات ہے کہ ملک عزیز اللہ کی عظیم نعمت ہے، مجھے اپنے وطن سے عقیدت ہی نہیں جنونی محبت ہے۔ مسائل مشکلات کہاں نہیں ہوتیں، دنیا کے کسی ملک میں بھی جائیں مشکلات ہر جگہ ہوتی ہیں البتہ روپ وانداز مختلف ہوتے ہیں مگر جوسکون، جو اطمینان اور دین اسلام کی جو مکمل تصویر مجھے پاکستان میں دیکھنے کو ملتی ہے شاید ہی کہیں اور ملے۔ میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکرادا کرتا ہوں کہ مجھے رہنے کیلیے پاک دھرتی نصیب کی ہے، جہاں میں آزادی سے سانس لیتا ہوں اسلامی اقدار، اسلامی تہذیب اور اسلامی ثقافت میں جی جی کر جوان ہوا۔ الحمدللہ رہنے کے لیے،اللہ کی اطاعت اور رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی اتباع کے لیے جو ماحول ملکِ عزیز میں ہے میری محدود معلومات کے مطابق پوری دنیا میں پاکستان سے بہترین جگہ کوئی نہیں۔ پاکستان میری جان ہے پاکستان کی ترقی، پاکستان کی خوشحالی اور دیرپا امن کے لیے صرف زبان سے نہیں دل سے دعا گو رہتا ہوں اور میری دلی تمنا یہی ہوتی ہے جو احمد ندیم قاسمی نے اشعار کی صورت میں بیان کی ہے
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
پاکستان میرا حال ہے پاکستان میرا مستقبل ہے، میں اگر سو سال تک بھی زندہ رہا تو میری یہی آرزو ہوگی کہ میں یہیں رہوں اور پاکستان اپنے بچوں کے لیے انتہائی محفوظ قیام گاہ سمجھوں گا ایسی محفوظ قیام گاہ کہ جہاں پر ان کی تہذیبی شناخت برقرار رہے گی اور وہ مکمل مسلمان بھی رہیں گے۔ ان سب باتوں کے باوجود افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ سے پاکستان میں رہنے والے، پاکستان سے محبت کرنے والوں کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے یہاں محب وطن کے تمغے اور غداری کے سرٹیفکیٹ انتہائی بے انصافی سے تقسیم کیے جاتے ہیں حالانکہ میرا ماننا ہے کہ محبت اور نفرت کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے کا اختیار ایوانوں اور انصاف گاہوں میں میں بیٹھنے والوں کے پاس نہیں بلکہ اس کے لیے انسان کا ضمیر ہی کافی ہے۔ اکیلے میں اگر کوئی اپنے ضمیر سے پوچھے تو سچ اور حق کاپتہ لگا سکتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ افراتفری اور بے چینی کے اس عالم میں ضمیر کی کون سنتا ہے اورمعاملہ پھر شاعر کے شعر جیسا بن جاتا ہے۔
وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
دوسری بدقسمتی یہ ہے میرے پیارے ملک کا عمومی مزاج سیاست بن گیا ہے خوشی ہو غمی ہو، نجی محفل ہو یا اجتماعی، جہاں دو لوگ ملیں تو موضوع سیاست، فلاں محب وطن ہے اور فلاں غدار ہے، وہ سلیکٹڈ ہے اور وہ غلام ہے۔گھر ہو، دفتر ہو،گاڑی میں سفرکر رہے ہوں یا کہیں ہوٹل میں بیٹھے ہوں ، جہاں بھی دولوگ بولیں تو ان کا موضوع سیاست ہی ہوگا۔ ایک حکمران سے گلہ کر رہا ہوگا تو دوسرا حمایت میں زمین و آسمان کے قلابے ملا کر جواب دینے کی کوشش میں لگا ہوا نظر آئے گا یا یہ کہ دونوں ایک دوسرے کی حمایت میں الٹے سیدھے دلائل کا انبار لگا کر اپنے آپ کو تسلی دے رہے ہوتے ہیں حالانکہ ان دونوں چیزوں سے پاکستان کا ذرہ بھر فائدہ نہیں ہوتا نقصان البتہ یہ ہوجاتا ہے کہ دواچھے خاصے لوگوں کا وقت ضائع ہوجاتا ہے یوں دنیاوی نقصان کے ساتھ ساتھ آخروی خسارہ بھی وہ کما لیتا ہے کہ ایسی مجالس میں عموماً غیبت جوئی ضرورہوتی ہے۔ میری دلی خواہش یہ ہے کہ ہم ہر نقصان حکمران کے کھاتے میں نہ ڈالیں اور نہ ہی ان سے بہتری کی مکمل توقع رکھیں بلکہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے ضمیر سے پوچھنا چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کتنی محبت رکھتا ہے، پاکستان کا وہ کتنا خیر خواہ ہے اور ابھی تک پاکستان کی تعمیر وترقی میں ان کا کردار کیا رہا ہے؟ اگر جواب حوصلہ افزاء ہے تو اللہ کا شکریہ ادا کریں اور آگے ایک سال کے لیے لائحہ عمل بنائیں ساتھ ساتھ اپنی مصروف زندگی کے شیڈول میں یہ بھی شامل کریں کہ دوسروں کو بھی پاکستان سے بھلائی کے لیے نہ صرف آمادہ کریں بلکہ رہنمائی بھی کریں تاکہ ان کا ارادہ عملی صورت اختیار کرجائے اور اگر مذکورہ سوالات کا جواب نفی میں ہے توآج سے ارادہ کریں اپنے مخلص دوستوں سے پوچھیں کہ میں پاکستان کی تعمیر وترقی، معاشی استحکام اور دیر پا امن کے لیے کون کون سی خدمات سرانجام دے سکتا ہوں اور پھر بسم اللہ کرکے شروع کریں۔ چودہ اگست کی مناسبت سے میرا یہی پیغام ہے اور دردِ دل بھی، اگر کوئی ایک بھی خلوص دل کے ساتھ نیت کرے تومیرا مقصدپورا ہوجائے گا اور وہ ایک کوئی بھی خوش قسمت بندہ ہوسکتا ہے، اب جس کے جی میں آئے وہ یہ خوش قسمتی اورخوش بختی حاصل کرسکتا ہے۔بقولے، اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا اللہ پاکستان کو سدا سرسبزوشاداب رکھے اور امن کاگہوارہ بنادے۔

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش