ایک ٹکٹ میں دو مزے

ایک طرف عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہورہی ہیں تو دوسری جانب پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کیا گیا ۔یہ اضافہ ایسے وقت میں ہوا جب آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کی ایک اور قسط کے لئے معاہدے کی خوش خبری سنائی جا چکی ہے ۔عالمی سطح پر معاندانہ رویہ بدلنے اور ایمن الظواہری کہانی کے بعد روپے کی قدر میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔کئی دوست ملکوں کی طرف سے رقوم ملنے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔عملی طور پر ابھی تک ان ساری خوش خبریوں کے اثرات عام آدمی تک نہیں پہنچے ۔عام آدمی پر مہنگائی کے تازیانے ہی برس رہے ہیں ۔یہ حکومت ان شخسیات کا مجموعہ ہے جو عالمی مارکیٹ کی مہنگائی کے بیانیے کو حقارت سے ٹھکراتے ہوئے مہنگائی مکائو مارچ کر رہے تھے ۔ان میں ایم کیوایم جیسی جماعتیں بھی شامل ہیں جنہوں نے صرف مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے یعنی صرف مفاد عامہ میں گزشتہ حکومت کو چھوڑا کر نئے اتحادیوں کا دامن تھاما تھا۔ حکومت نے پرائیویٹ ٹیلی وی چینلوں کے ٹاک شوز کے ذریعے گزشتہ چندہفتے سے عوام کو عمران خان ،فارن فنڈنگ اور شہباز گل جیسے اہم ترین موضوعات میں یوں اُلجھا رکھا ہے کہ ان کی توجہ بازار کی چیرہ دستیوں اور اپنی جیبوں کی طرف جانے ہی نہیں پائی ۔اس شور وہنگامے میں حکومت پٹرولیم اور گیس کی قیمتوں کو بڑھاتی چلی گئی ۔اس لئے حکومت بھی بے خوف ہو کر مشکل فیصلے کرتی جارہی ہے ۔یہ فیصلے حکومت کے لئے تو قطعی مشکل نہیں ہوتے بلکہ اس مشکل کی ساری زد عوام پر پڑتی ہے ۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تازہ اضافہ کا مفتاح اسماعیل نے حسب روایت مسکراتے ہوئے دفاع کیااور یوں دفاع کیا کہ دنیا جس کو پٹرول بم کہہ رہی ہے مفتاح اسماعیل اسے وزیر اعظم شہباز شریف کی” شفقت” کہہ رہے تھے ۔ حکمرانوں کی شفقت کا یہ عالم ہے تو عداوت کا میعار کیا ہوگا؟اس شفقت کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت کے اتحادیوں نے بھی یکے بعد دیگرے پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے فیصلے سے ایک فاصلہ پیدا کرنا یا اس کا تاثر دینا ضروری سمجھا ۔سب سے پہلے تو حکومت کی سب سے مرکزی پارٹی مسلم لیگ کی سیاسی قیادت کی ترجمانی کرتے ہوئے مریم نوازشریف نے ایک ایسے اجلاس کا احوال دردناک انداز میں یوں سنایا کہ بے ساختہ آنسو نکل پڑتے ہیں ۔ایک اجلاس میں میاں نوازشریف نے پٹرولیم مصنوعات میں اضافے پر احتجاج کیا اور وہ اجلاس چھوڑ کر چلے گئے ۔حیرت یہ ہے کہ جو حکومت میاں نوازشریف کی اجازت کے بغیر سانس تک نہیں لیتی اس نے میاں صاحب کو واک آؤٹ سے روک کر اپنا فیصلہ واپس کیوں نہ لیا ۔مریم نوازنے اپنے اور میاں نوازشریف کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو مستر د کر دیا ۔اس کے بعد حکومت کادوسرا بڑا ستون پیپلزپارٹی بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے عوام کے غم میں لرزنے لگا ۔اس کا ثبوت آصف علی زرداری نے قیمتوں میں اضافے پر ایک باقاعدہ بیان کی صورت میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور اس معاملے میں عدم مشاورت کا گلہ کیا ۔بات یہیں نہیں رکی ایم کیو ایم اور آفتاب شیرپاو جیسے اتحادیوں نے بھی اس قطار میں حاضری لگوانا ضروری سمجھا ۔مریم نوازاگر اپنے چچا جان کی پالیسیوں کو ڈوس اوون کررہی تھیں تو آصف زرداری اپنے صاحبزادے کی پالیسی کو ڈس اوون کررہے تھے ۔یوں لگتا ہے کہ حکمرانوں کا حکومت میں پوری طرح دل نہیں لگ رہا اسی لئے وہ ایک ایک کرکے شاخ اقتدار سے لمحہ بھر کو شاخ َاختلاف پر جابیٹھنے لگے ہیں مگر اپوزیشن کی اس شاخ پر ان کا بسیر ا مستقل نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک نغمہ گا کر واپس اقتدار کی شاخ پر آجاتے ہیں ۔گویا کہ حکومت کے کل پرزے ایک ٹکٹ میں دومزے لینے پر مُصر ہیں ۔حکومت میں ان کی دلچسپی کا پورا سامان ہے ۔تنخواہ ،مراعات عالمی سیر وسیاحت کے مواقع غرضیکہ ہر وہ خواہش پوری ہوتی ہے جس کی اقتدار سے باہر تمنا کی جاتی ہے ۔ان ایوانوں میں عام آدمی کا والہانہ پن محبت اور عقیدت نہیں کیونکہ حکومت چند ماہ میں عوام کو کوئی ریلیف فراہم نہیں کر سکی۔اس کا نتیجہ ہے کہ اپوزیشن کے کیمپ کی رونقیں دوبا لا ہیں اور حکومت کا خیمہ اقتدار کی روشنیوں کے باوجود بے رونق سادکھائی دیتا ہے ۔اس لئے حکومت کے دست وبازو اپوزیشن کے کیمپ کی رونقوں کو حسرت سے دیکھ رہے ہیں ۔حکومت کے اقدامات پر حکومت کے تحفظات کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ حکومت ایک ٹکٹ میں دومزے لینا چاہتی ہے ۔اقتدار کی لذتوں سے آشنائی بھی اور اپوزیشن کے گلیمر کالطف بھی لینا چاہتی ہیں۔گویا کہ حکومت اپوزیشن کے لئے اپوزیشن کا میدان بھی خالی نہیں چھوڑنا چاہتی۔ طفہ تماشا یہ کہ حکومت کے جو اجزائے ترکیبی مہنگائی پر درناک کہانیاں بیان کررہے ہیںاور واقعات واختلاف کی ہولناک منظر کشی کر رہے ہیں وہی انتخابات سے گریز کی راہ پر بھی چل رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی