مشرقیات

یہ کوئی پہلی بار آفت تو نہیں پڑی جو اتنی ہاہاکار مچی ہوئی ہے ،آپ2005کے زلزلے کو یاد کر لیں یا پھر2010کے سیلاب کو ،تب بھی یہی کہا جاتا تھا ہم لٹ گئے ہم مر گئے ،تاہم ہم اتنے بدنام نہیں تھے بہرحال اس لیے دنیا نے ہماری دہائی سے قبل ہی ازخود نوٹس لیتے ہوئے اتنی مالی مدد ضرور کر دی تھی کہ ہم چاہتے تو کر لیتے نئی بستیاں آباد ،تاہم ہوا کیا تھا دنیا بھر سے آئی امداد کو ٹھکانے لگانے کے لیے دوچار ادارے ”ایر ا غیرا ”قسم کے کھڑے کر دئیے گئے ایک مدت تک متاثرین کو یہ ادارے تسلی دلاسوں پر ٹرخاتے رہے اور پھر اس کی بھی ضرورت نہیں سمجھی گئی اول تو لوگ ہی ان اداروں سے امید چھوڑ بیٹھے تھے پھر بھی کوئی بھولا بھٹکا امداد کی آس میں ان سے رابطہ کر لیتا تھا تو اسے سوکھا جواب دے کر نو دو گیارہ کر دیا جاتا تھا آپ کو یقین نہیں تو ابھی زلزلہ متاثرین میں سے بچ جانے والے بہت سے لوگ حیاتی ہیں جا کر ان سے پوچھ لیں کیسے گزشتہ سترہ برسوں سے جیتے آئے ہیں ساتھ ہی 2010کے متاثرین سیلاب سے بھی حساب کتا ب لینا نہ بھولئے۔ان اداروں کو بھی یقین ہو چلا ہے کہ پاکستان آفتوں کے لحاظ سے بڑا زرخیز ملک ہے معلوم نہیں انہیں آفت کہنا بھی چاہئے یا نہیں کہ اکثر آفتوں کے پس منظر میں بھی ہماری قومی انتظامی بداعمالیا ں کار فرما ہوتی ہیں ،حالیہ سیلاب کو ہی دیکھ لیجیئے جتنے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے اور پانی نے آدھے سے زیادہ ملک کو ڈبویا ہے تو اس کی بڑی وجہ کوئی اور نہیں بدانتظامی کو وہ داستانیں ہیں جو ملک بھر کے دور دراز کے پسماندہ علاقوں میں سرکا ر اور اس کے ہرکاروں نے رقم کی ہیں۔سوات کی مثال لے لیجیے آپ کو سب بتا رہے ہیں کہ اس سیاحی علاقے میں تمام تر نقصان کی بڑی وجہ دریا کنارے یا عین دریا کے بیچوں بیچ ہونے والی تجاوزات ہیں۔ایسے ہی بلوجستا ں ہو یا اندرون سندھ کے علاقے دریائوں کے پشتوں سے لے کر بند باندھنے تک ہر کام میں کمیشن اور کرپشن نے سیلاب کا راستہ روکنے کا پکا کام ہونے ہی نہیں دیا۔چھوٹی بڑی شاہراہوں پر پل تک ایسے بنائے گئے جو پہلے ہی ریلے کا حملہ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔مان لیا گزشتہ چند عشروں میں ایسی تباہ کن بارشیں نہیں ہوئیں تاہم بارش کے پانی کی قدرتی گزرگاہوں کو ہائوسنگ سوسائیٹیوں کی نذر کس نے کیا؟انہی سوالات کے جواب دنیا مانگ رہی ہے امداد دینے میں اس نے بخل کا جو مظاہرہ کیا ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ دنیا ہم پر اعتماد نہیں کر رہی خود ہمارے خزانچی تک کہہ رہے ہیں کہ مفت تو چھوڑیں دنیا ہماری بداعمالیوں کے باعث قرض تک دینے کو تیار نہیں ہے۔تو جناب جس طرح اداروں کے سامنے لوگ رو پیٹ کر صبر کر لیتے تھے پہلے پہل اب کی بار ان اداروں کو بھی مفت کا مال شاید زیادہ ہاتھ نہ آئے اس لیے زیادہ واویلا نہ کریں آرام سے بیٹھے جائیں آپ کو متاثرین کا کم اور اپنا غم زیادہ کھائے جا رہاہے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی