انتخابات جمہوریت کی روح ہیں مگر ؟

تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روزایک بار پھر ملک میں فوری عام انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ انتخابات ہی ملک کو دلدل سے نکالنے کا واحد ذریعہ ہیں ان کے بقول بیرون ملک موجودہ حکومت کی ساکھ ختم ہوچکی ہے ملک کے اندر بھی کوئی اس پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں نیز یہ کہ ان کی جماعت اس وقت ملک کی مقبول ترین جماعت ہے یہ مقبولیت گزشتہ پچھتر برسوں میں کسی سیاسی جماعت کو نہیں ملی۔ عمران خان یہ بھی کہتے ہیں کہ انتخابات کے انعقاد میں تاخیری حربے استعمال کرنے سے ملک کو نقصان پہنچے گا۔ ان کے بقول موجودہ حکومت کے پاس معیشت کو بچانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ انتخابی عمل جمہوریت کا حصہ اور روح ہی نہیں بلکہ اس کا اصل حسن بھی ہے۔ رائے دہندگان انتخابی عمل کے ذریعے اپنی قیادت کا انتخاب کرتے ہیں اور منتخب قیادت اپنے انتخابی منشور پر ترجیحات کے مطابق عمل کرکے زندگی کے مختلف شعبوں میں بہتری لاتی ہے۔ یہاں سوال البتہ یہ ہے کہ کیا اس وقت جب فیڈریشن کی دو اکائیوں سندھ اور بلوچستان کا بڑا حصہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور خیبر پختونخوا و پنجاب کے کچھ علاقے سیلاب سے بری طرح متاثر ہیں، انتخابی عمل کا ڈول ڈالا جاسکتا ہے؟ بظاہر اس کا کوئی امکان نہیں۔ بلوچستان اور سندھ میں سیلاب کا پانی اترنے (خشک ہونے)میں کم و بیش تین ماہ لگ سکتے ہیں۔ تین کروڑ کے قریب سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے بھی مزید وقت درکار ہوگا ایسے میں انتخابی سرگرمیاں اور پولنگ ہر دو کیسے ممکن ہوں گے؟ پی ٹی آئی 2018 کے عام انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت تو یقینا ہے کیا یہ مقبول ترین جماعت ہونے کا ثبوت ہے۔ 2018 کے انتخابات پر اسی طرح مینجمنٹ کے شکوک کے بادل چھائے ہوئے ہیں جیسے اس سے قبل کے انتخابات پر چھائے ہوئے تھے۔ خود عمران خان 2013 کے انتخابات کے نتائج کو دھاندلی کی پیداوار قرار دیتے تھے۔ انتخابی عمل کی شفافیت اور دھاندلی کی تحقیقات کے لئے انہوں نے ڈی چوک پر 126دن کا دھرنا بھی دیا تھا۔ ان کے احتجاج اور دھرنے کی سیاسی اخلاقیات کی روشنی میں کیا حیثیت رہ گئی جب بعد کے دنوں میں انہوں نے 2013 کے انتخابات میں 35پنچر لگانے والی اپنی بات پر پوچھے گئے سوال پر یہ کہا تھا کہ وہ تو ایک سیاسی بات تھی۔ ملک میں اس وقت جو مسائل (سیلاب وغیرہ کے علاوہ) موجود ہیں کیا یہ صرف 5ماہ کے دوران پیدا ہوئے؟ ایسا بالکل نہیں ہے ان میں سے 95فیصد مسائل ان کے دور اقتدار میں پیدا ہوئے۔ تحریک عدم اعتماد اور حکومت کے خاتمے کو امریکی سازش قرار دے کر پروپیگنڈے کے زور پر انہوں نے جو بیانیہ بنایا اس کی جذباتی لہر میں بہہ جانے والے آخر یہ سوال کیوں نہیں کرتے کہ خود ان کے پونے چار سالہ دور اقتدار میں کن کن شعبوں میں بہتری آئی سوائے پروپیگنڈے کے طوفان کے؟
یہ سوال بھی اہم ہے کہ آئی ایم ایف معاہدہ کی دلدل میں ملک کو پھینکا کس نے۔ اسی طرح ان کے دور میں کرپشن کے جو سکینڈل سامنے آئے ان کی تحقیقات اور ذمہ داران کو سزا دلوانے میں کیا امر مانع تھا؟ خود ان کے اپنے دور میں ملک سفارتی تنہائی سے دوچار ہوا۔ سی پیک منصوبے سے سردمہری نے چین کو ناراض کیا۔ او آئی سی کا متبادل پلیٹ فارم بنانے کے لئے ترکی اور ملائیشیا سے پرجوش یکجہتی نے عرب دوستوں کو ناراض کیا۔ اندرون و بیرون ملک اپنی تقاریر میں انہوں نے سیاسی مخالفین کو منی لانڈر، کرپٹ، چور ڈاکو جس تواتر کے ساتھ کہا اس کے جو نتائج نکلے اور جس طرح پاکستانی سیاسی عمل اور نظام بداعتمادی کا شکار ہوئے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس امر پر دو آرا ہرگز نہیں کہ جمہوری عمل انتخابی عمل سے آگے بڑھتا پھلتا پھولتا ہے مگر فوری انتخابات کا انعقاد کیسے ہوگا بالخصوص سیلاب سے پیدا شدہ صورتحال میں؟ وہ بلاشبہ ایک مقبول سیاسی رہنما ہیں اس وقت بھی فیڈریشن کی دو اکائیوں میں ان کی حکومت ہے کیا ان دو صوبوں میں عوام کی حالت زار میں کوئی تبدیلی آسکی۔ اس وقت ایک سے زائد بار وہ خود اعتراف کرتے دیکھائی دیئے کہ مہنگائی ہے لیکن اس وجہ عالمی مسائل ہیں۔ گزشتہ5ماہ کے دوران ان کی جارحانہ سیاست الزام تراشی اور سازشی تھیوریوں سے ہی عبارت ہے۔ ان پانچ ماہ میں انہوں نے درجنوں جلسے کئے اور تقریبا روزانہ کی بنیاد پر میڈیا سے گفتگو کی ان میں سے کسی میں بھی انہوں نے یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ پونے چار برس کے دور اقتدار میں انہوں نے اپنی جماعت کے انتخابی منشور پر کتنا عمل کیا۔ صوبہ پنجاب کے سرائیکی بولنے والے اضلاع سے انہوں نے الگ صوبے بنانے کے نام پر ووٹ لئے پونے چار برسوں میں صوبہ نہ بن سکا کیوں نہیں بن پایا اس کا کسی کے پاس جواب نہیں۔ سیاست میں موروثیت کے خاتمے کا ایجنڈا رکھنے والے لیڈر کی اپنی جماعت میں موروثیت پھلی پھولی۔ انہوں نے اس کا بھی نوٹس نہیں لیا۔ عمران خان کی پوری جدوجہد استحصال سے پاک نظام کے قیام کے لئے تھی۔ اقتدار کے برسوں میں انہوں نے جبرواستحصال کے خاتمے کے لئے کیا اقدامات کئے؟ امریکی سازش کا تکرار کے ساتھ ذکر کرتے اور مقامی کرداروں پر گرجتے برستے انہوں نے اب یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ میں اینٹی امریکہ نہیں ہوں۔ سازش کے مقامی کرداروں کے ساتھ تعلقات کار اور اعتماد سازی کے لئے ان کے چند دوست کوشاں ہیں۔ ہم ان کی خدمت میں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ انتخابی عمل کے اعلان سے قبل اگر حکومت کے ساتھ بیٹھ کر انتخابی اصلاحات کو یقینی نہیں بناتے تو آئندہ انتخابات بھی گزشتہ انتخابات کی طرح متنازعہ ہی رہیں گے۔ انہیں ایک ذمہ دار سیاسی رہنما کے طور پر معاملات کو دیکھنا سمجھنا اور ان کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنا ہوگی کہ فوری طور پر نومبر یا دسمبر میں انتخابات ممکن ہی نہیں کب ممکن ہوں گے اس ٹائم فریم کے لئے پی ٹی آئی کو حکومت سے ہی بات کرنا ہوگی۔ حکومت کے علاوہ کسی سے انتخابی عمل کے انعقاد کی گارنٹی کا حصول ان کی سیاست اور فہم پر سوالات اٹھوائے گا اس لئے بہتر یہی ہے کہ وہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں۔

مزید پڑھیں:  وزیر اعظم محنت کشوں کو صرف دلاسہ نہ دیں