”نامعلوم”جو معلوم ہوگئے!

گزشتہ بیس سالوں سے قبائیلی علاقوں سے صحافت کی بنا پر ایک عجیب سا تعلق رہا۔ کبھی کبھی تو بحث کے دوران سننے والے سوچنے لگتے ہیں کہ کسی نہ کسی قبائیلی ضلع سے میرا تعلق تو ہے لیکن کون سے قبیلے سے یہ اندازہ لگانا ان کے لئے مشکل ہو جاتا ہے۔ شمالی وزیرستان چونکہ عسکریت پسندی کا گڑھ رہا ہے اس لئے وہاں آنے جانے کا اتفاق زیادہ رہا۔ ڈرون حملے، خودکش حملے، امن مذاکرات، فوجی آپریشن اور طالبان کے اجتماعات اس کو قریب سے دیکھا اور رپورٹ کیا۔ آپریشن ضرب غضب کی کامیابی کا خود شاہد رہا۔ لیکن جوں جوں افغانستان سے امریکی انخلا اور طالبان کی آمد کے اشارے ملنا شروع ہوگئے شمالی وزیرستان میں بدامنی کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے۔”نامعلوم افراد” کی جانب سے دھمکیاں اور ٹارگٹ کلنگ کا آغاز ہوا تو لوگ امن کے لئے نکلے اس وقت بھی وزیرستان کے قبائیل امن کے لئے دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ کامیاب آپریشن کے بعد نامعلوم افراد کی سرگرمیوں کے باعث عوام میں حکومت کے حوالہ سے شکوک وشبہات نے جنم لیا۔ ان میں یہ تاثر جنم لینے لگا کہ یہ”نامعلوم”کہیں اور سے لائے گئے ہیں۔ دوسری جانب حساس اداروں کے اہلکاروں کا یہ ماننا تھا کہ یہ ان کے اپنے ہیں۔ اسی علاقے کے ہیں۔ ان کو جانتے ہیں اور یہ بھی ان نامعلوم کو جانتے ہیں۔ ان کا ماننا تھا کہ جن کی رہائی کے لئے آوازیں اٹھتی ہیں وہ بھی کسی زمانے میں اس طرح”نامعلوم”تھے۔ اب معلوم ہوگئے ہیں تو ان کی رہائی کے مطالبات کیئے جارہے ہیں۔ جو آوازیں اٹھاتے ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ اگر ان میں سے کوئی کسی زمانے میں ”نامعلوم”تھا تو اس کو عدالت میں پیش کرکے سزا دلائی جائے۔ اس کے جواب میں سکیورٹی اہلکار کہتے ہیں کہ ہمارے قوانین میں سقم موجود ہیں۔ اس حوالہ سے ان کے بہت تلخ تجربات رہے ہیں۔ کئی بار جیسے ہی ماضی کے ان ”نامعلوم”افراد کو عدالت میں پیش کیا گیا ان کو پہلی پیشی میں ہی رہائی مل گئی۔ ان کے پاس ایسے بھی ثبوت موجود تھے کہ وہی لوگ دوبارہ ”نامعلوم” بن کروہی کام کرنے لگے۔ لیکن پچھلے دنوں ایک چمتکار ہوگیا۔ چمتکار بولے تو انہونی ہو گئی۔ ایک ایسا کام جو ان بیس سالوں میں کبھی نہیں ہوا۔ ایک مثال بن گئی ہے۔ نو ماہ قبل شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے خدری داوڑ قبیلے کے رکن مسرور داوڑ کو”نامعلوم”افراد نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ لگ بھگ ایک ماہ قبل جب وزیرستان میں نامعلوم افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف دھرنا جاری تھا مسرور کے بھائی فردوس داوڑ کو بھی ”نامعلوم”افراد نے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔ ان دونوں شہدا کے بھتیجے پندرہ سالہ ساجد داوڑ چونکہ ان نامعلوم افراد کے ستم کا شکار تھے اس لئے بسا اوقات ان کے خلاف اپنا غصہ نکال دیتے تھے۔ ظاہری بات ہے کہ یہ بات چیت علاقہ میں موجود ان نامعلوم افراد تک بھی پہنچتی رہی۔ سترہ ستمبر کو ساجد داوڑ موٹرسائیکل پر میرعلی بازار گیا اور وہاں سے سودا سلف لے کر گھر روانہ ہوا۔ خدری قبائیل دریائے ٹوچی کے کنارے ہی دیگر داوڑ قبائیل کی طرح خدری نامی گاں میں آباد ہیں۔ راستے میں عیدک کے قریب خدی پل سے گزرنے لگا تو تین ”نامعلوم”نقاب پوشوں نے اسے روکا۔ موٹر سائیکل سے اتار کر زدوکوب کیا۔ طرح طرح کی گالیاں دیں اور موبائیل فون چھین لیا۔ یہ” نامعلوم”نقاب پوش اسے مارتے ہوئے کہتے رہے کہ وہ حکومت کا جاسوس ہے۔ اس لئے اسے نشان عبرت بنایا جا رہا ہے۔ اس دوران مقامی لوگ بھی اردگرد جمع ہوگئے لیکن مسلح نقاب پوشوں کو روکنا تو دور کی بات وہ خاموشی سے دیکھنے لگے کہ اس پندرہ سالہ نوجوان کو کتنی گولیاں ماری جاتی ہیں اور وہ کس طرح شہید ہوتا ہے۔ اتنے میں ایک بزرگ عورت بھی پہنچتی ہے۔ وہ ہمت کرکے نامعلوم نقاب پوشوں سے التجا کرتی ہے کہ بچے کو نا مارا جائے اس کی ماں اس کی لاش کا صدمہ برداشت نہیں کر پائے گی۔ جواب میں ایک ”نامعلوم”نے کہا کہ انہوں نے نا جانے کتنی مائوں کو اس طرح کے صدمات دیئے ہیں۔ جب ساجد داوڑ کو یقین ہوا کہ اب اس کے اور موت کے بیچ میں صرف گولی کا فاصلہ رہ گیا ہے اس نے جھپٹا مار کر ایک حملہ آور سے کلاشنکوف چھین لی۔ وہ کلاشنکوف چونکہ اس کو مارنے کے لئے تیار تھی اس لئے ساجد داوڑ نے صرف انگلی دبائی اور ایک ”نامعلوم”موقعہ پر ڈھیر ہوگیا۔ دوسرا ”نامعلوم”زخمی حالت میں تڑپنے لگا بعد میں اس کی بھی موت ہو گئی۔ جب کہ تیسرا ”نامعلوم”ہڑبڑاہٹ میں بھاگ نکلا۔ دراصل یہ تینوں پندرہ سالہ بچے کے اس ردعمل کے لئے بالکل تیار نہ تھے۔ لوگ ہکا بکا حیران تھے۔ کچھ لوگ تو ویسے ہی بھاگ نکلے کہ یہ ہوا کیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد سمجھ آئی کہ ساجد داوڑ کھڑا ہے اور اسے مارنے والے زمین پر خون میں لت پت پڑے ہیں۔ اس نے آرام سے ”نامعلوم”سے چھینی گئی بندوق گلے میں لٹکائی موٹرسائیکل کو کک ماری اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ کچھ دیر بعد بہت سارے نامعلوم افراد آئے اور اپنے زخمی اور مردہ نامعلوم کی لاش کو اٹھا کر نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہوگئے۔
ایک گھنٹے بعد سارے ”نامعلوم”معلوم ہو گئے۔ ایک دلچسپ اور حیران کن انکشاف ہوا کہ تینوں نامعلوم افراد اس کے اپنے ہی اس چھوٹے سے خدری گاں کے رہائیشی تھے۔ تینوں کا تعلق خدری قبیلے سے تھا اور ایک دوسرے کو خوب جانتے تھے۔مرنے والے نامعلوم جو معلوم ہوگئے وہ تھے طفیل داوڑ اور ثاقب داوڑ جب کہ فرار ہونے والا نقاب پوش نعمان نکلا۔ بالفرض ایسوڑی ایک اور داوڑ قبیلہ ہے۔ اگر اس قبیلے کا کوئی بندہ خدری قبیلے کے گائوں میں بھی رہتا ہو لیکن اسے مارنے کے لئے ایسوڑی کا اپنا ہی ٹارگٹ کلر خدری قبیلے کے علاقے میں جاکر اس کی ٹارگٹ کلنگ کرے گا۔ گو کہ خدری قبیلے کے اپنے ٹارگٹ کلرز اپنے علاقے میں موجود ہوں گے لیکن وہ یہ کام نہیں کریں گے۔ بہرحال قبائیل میں آہستہ آہستہ نامعلوم افراد معلوم ہونے لگے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ادارے اور خود ساجد داوڑ کا اپنا خدری قبیلہ کس حد تک حفاظت میں اس کا ساتھ دیتے ہیں اور مزید کتنے ساجد داوڑ جنم لیتے ہیں۔ ایک بات جو محسوس کی جا رہی ہے وہ یہ کہ ساجد داوڑ کو علاقہ کے نوجوانوں اور مشران میں مقبولیت حاصل ہوگئی ہے اور ایک ہیرو کی طرح اس کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ ساجد داوڑ کی اس دفاعی حرکت سے وزیرستان کے قبائیل میں ایک امید پیدا ہوگئی ہے کہ وہ ذاتی طور پر بھی امن کے قیام کے لئے اپنے دفاع میں اہم ترین کردار ادا کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی