حساس معلومات محفوظ ہیں؟

وزیر اعظم اور وفاقی وزرا کی مبینہ آڈیو لیک نے ایک بار پھر ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں حدت پیدا ہونا فطری امر ہے وطن عزیز میں جبکہ بہتان طرازی اور الزامات کی سیاست معیوب نہیں وہاں کسی صوتی ثبوت کا سامنے آنا بڑی بات ہے۔یہ صورتحال بلا شبہ یہ( ن) لیگ کے لیے بڑا دھچکا ہے جس کے منفی سیاسی اثرات مرتب ہوں گے اورشدید تنقید کے باعث جماعت کی مشکلات بڑھیں گی۔وفاقی وزرا کی مبینہ آڈیو لیک سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آیا وزیر اعظم کے دفتر میں کوئی اہم بات چیت افشاں ہوئے بغیر کی بھی جا سکتی ہے یا نہیں۔اس سے بہت سارے اہم سوالات بھی جنم لے رہے ہیں۔سب سے پہلے یہ کہ کون ایسی کالوں کو ریکارڈ کر رہا ہے اور کس کی اجازت سے کر رہا ہے؟ آڈیو لیک کے پیچھے کون ہے اور اس کے کیا مقاصد ہیں؟ کیا کچھ قوتیں اب بھی پی ٹی آئی کی حمایت کر رہی ہیںپی ڈی ایم کے رہنما وقتاً فوقتاً اس طرح کاتاثر دیتے رہتے ہیں اگر ن لیگ لیک ہونی والی آڈیو کو مستند نہیں سمجھتی، تو اس کی فرانزک کرانی چاہیے اور اس کی انکوائری بھی ہونی چاہیے۔بصورت دیگر ن لیگ کو بہت سیاسی نقصان ہو گا کیونکہ لوگ کسی انکوائری کے بغیر مطمئن نہیں ہوں گے۔ان تمام عوامل سے قطع نظر کہ سیاسی طور پر اس کے اثرات کیا ہوں گے تشویشناک بات یہ ہے کہ ہماری ملکی رازداری کا تحفظ کس حد تک ممکن ہے اور متعلقہ ذمہ دار اداروں کی جانب سے اس کی روک تھام یقینی بنانے کے لئے کیا کچھ کیا جارہا ہے ۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے وزیراعظم آفس کا ڈیٹا ڈارک ویب پر فروخت کے لیے پیش ہونے کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں خصوصاً آئی بی کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ سابق وفاقی وزیر کا کہناتھا کہ ظاہر ہے سیاسی کے علاوہ سکیورٹی معاملات اور خارجہ امور پر بھی گفتگو اب سب کے ہاتھ میں ہے۔وزیراعظم آفس محفوظ نہیں تو پھر کون سی جگہ محفوظ ہے۔ ایٹمی ملک کے وزیراعظم کے دفتر کی گفتگو ساڑھے تین لاکھ ڈالر میں دستیاب ہے۔سابق وفاقی وزیر کا بیان یقینا چشم کشا ہے اور اس صورتحال سے عوام کا بھی مشوش ہونا فطری امر ہے اس ساری صورتحال کی جامع تحقیقات ہونی چاہئے اور آئندہ کے لئے اس کے تدارک کے لئے موثر اور ناقابل عبور انتظامات کئے جائیں۔یہ ایسی صورتحال ہے جسے نظرانداز نہیں کیاجاسکتا اس کی باقاعدہ تحقیقات کے بعد حقائق سے قومکوآگاہ کیا جانا چاہئے۔
بھتہ خوری کی روک تھام کی جائے
پشاور سے طور خم تک جگہ جگہ ٹریفک پولیس اہلکار، پولیس اہلکار ،خاصہ دار فورس ،کسٹم اور ایکسائز کے عملے کی جانب سے امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ مال پاکستان اور افغانستان سمیت وسط ایشیاء کو مال لے جانے والے ٹرالروں و ٹرکوں سے روزانہ لاکھوں روپے کی مبینہ بھتہ وصولیوں کے خلاف افغان ٹرانسپورٹ اونر ایسوسی ایشن پاکستان کی جانب سے دونوں ممالک میں پہیہ جام ہڑتال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ان کا الزام ہے کہ پشاور سے طور خم اور اٹک تک 35مقامات پر مختلف اداروں کے اہلکار ایکسپورٹ مال سے لدی گاڑیوں کو بلا وجہ روک کر بغیر کسی رسید کے منہ مانگا بھتہ وصول کریا جارہا ہے ٹریفک پولیس کے اہلکار بغیر کسی جرم کے گاڑیاں کھڑی کر کے منہ مانگا بھتہ وصول کر رہے ہیں نیز مختلف مقامات پر ٹریفک پولیس ‘ خاصہ دار پولیس ‘ کسٹم اور ایکسائز کا عملہ بھی ٹرانسپورٹروں کو تنگ کرتا ہے ۔حال ہی میں اس قسم کی شکایت پر ڈی پی او خیبر نے کارروائی کرکے پولیس کے نوکروں کے چاکروں کی گرفتاری اور آئندہ کے لئے اس عمل کے تدارک کا عندیہ دے چکے تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ بااثر مافیا کے سامنے وہ بھی بے بس ہیں ان کی کارروائی کے باوجود یہ کارروائی جارہی رہی انہی سطور میں بااثر عناصر کی طرف اشارہ کرکے جس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا وہ درست نکلا پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت بڑھانا ہر دو ممالک کے مفاد میں ہے ایک اندازے کے مطابق روزانہ ایک ہزار ٹرکوں کی آمدورفت رہتی ہے جن سے بھتہ وصولی سے بھاری رشوت روزانہ اکٹھی ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور یہ ساری رقم صرف پولیس ہڑپ نہیں کر سکتی بلکہ علاوہ ازیں بھی حصے دارر ہوں گے یہی وجہ ہے کہ پوری کوشش کے باوجود اس شکایت کی روک تھام نہیں ہو پاتی اس معاملے کا اعلیٰ سطح پر نوٹس لیا جانا چاہئے اور بھتہ خوری کا سلسلہ ختم کرکے پاک افغان تجارت میں سہولت اور اضافہ کو یقینی بنایا جانا چاہئے ۔ توقع کی جانی چاہئے کہ اس قبیح عمل کی روک تھام کے لئے ہر سطح پر اقدامات کا آغاز ہو گا اور ٹرانسپورٹروں کی شکایات کا ازالہ کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے