حکومت برائے حکومت

پاکستان کے لئے بگڑی ہوئی معیشت کا بحران ہی کیا کم تھا کہ سیلاب ایک اور تباہی کی دردناک داستان بن کر رہ گیا ۔معیشت کی رگوں کے خون کے آخری قطرے سیلاب کی نذر ہونے لگے ہیں ۔معیشت کی بحالی کے لئے موجودہ تجربہ کار اور بہترین منتظمین کی یہ حکومت پہلے مرحلے میںکامیابی حاصل نہ کرسکی ۔مفتاح اسماعیل کی حکمت کاری اور تجربہ اب دم توڑچکا ہے۔وہ عزت وتکریم کے ساتھ لندن بلائے جانے اور معاشی میدان میں گراں قدر خدمات کے اعتراف کی سند تھمائے جانے کے بعد ذمہ داری سے فارغ ہو چکے ہیں اور اس میدان میں ان سے زیادہ تجربہ کار اور بارسوخ شخصیت اسحاق ڈار کو اہتمام سے وطن واپس لایاگیا اور اب وہ اپنی صلاحیتیں اور حکمت کاری سے معیشت کو بحال کرنے کی کوشش کریں گی۔ اسحاق ڈار معیشت کے مریض ِجاں بہ لب کو وینٹی لیٹر سے آزاد کرتے ہیں یا وہ تبدیلی برائے تبدیلی کی رسم کا عنوان بن کر رہ جاتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا معاشی بحران سری لنکا کی صورت حال اختیار کر تا جا رہا ہے ۔بہتری اور اچھائی کے لمحات آنے کی بجائے ہر دن خرابی کا پیغام لے کر طلوع ہوتاہے ۔سری لنکا جیسی صورت حال پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہی ہے ۔بہت سوں کا خیال ہے کہ پاکستان عملی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے صرف رسمی اعلان کرنا باقی ہے۔سری لنکا کا معاملہ زیادہ گھمبیر بھی نہیں تھا بدترین شورش کا برسوں سامنا کرنے والے اس ملک کے حالات بھی کسی دیوالیہ پن سے کم نہیں تھے۔بیس برس پرانا زمانہ ہوتا تو خوں خوار تامل تحریک معاشی دیوالیہ پن کا فائدہ اُٹھا کر فیصلہ کن وار کر سکتی تھی مگر تامل تحریک کو دم توڑے ہوئے برسوں گزر گئے ۔بھارت اور چین جیسے ہمسایوں کو بھی سٹیٹس کو توڑنے میں کوئی کشش باقی نہیں رہی البتہ اپنا اثر ورسوخ قائم کرنے کا ایک کھیل پردے کے پیچھے کھیلنے کا عمل جاری ہے۔پاکستان کے معاشی دیوالیہ پن کا مطلب سری لنکا سے قطعی مختلف ہے ۔پاکستان دنیا کے ساتویں ایٹمی طاقت اور ایک بڑی فوج اور بائیس کروڑ آبادی کا ملک ہے ۔چین اور بھارت کے پہلو میں واقع ہے اور افغانستان جیسے غیر مستحکم ملک کی قربت رکھتا ہے ۔ایک اعلانیہ ایٹمی طاقت کا یوں معاشی طور پر دیوالیہ ہوجاناپوری دنیا کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجانے کا باعث بن سکتا ہے ۔پاکستان کا ایٹمی پروگرام یوں بھی تاریخ کے ہر دورمیں عالمی دنیا بالخصوص امریکہ کے لئے بجنے والی خطرے کی گھنٹی رہا ہے ۔مغربی دنیا میں جتنے افسانے اور داستانیں اس ایٹمی پروگرام سے منسوب رہیں شاید ہی کسی دوسرے ملک کے ایٹمی پروگرام کو یہ اعزاز حاصل رہا ہو ۔اس ایٹمی پروگرام اور بم کا تو مذہب بھی مغرب نے دریافت کیا اور اسے اسلامی بم کا نام دیا گیا۔مغرب نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر مستقل طور پر ”غیر محفوظ” کا سٹکر چسپاں کئے رکھا ۔ان دنوں اسرائیل کے سابق وزیر اعظم نیتن یاہو کا ایک وڈیو کلپ گردش میں ہے جس میں و ہ اسرائیل کی ترجیحات اور اہداف کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسرائیل کے دومقاصد ہیں پہلا یہ کہ ایٹمی ہتھیار ملی ٹینٹ اسلام کے ہاتھ نہ لگیں یعنی ایران اور دوسرا یہ کہ پولٹیکل اسلام ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ جڑنے نہ پائے جیسا کہ پاکستان۔اس کے بعد دنیا کی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے حساسیت کو سمجھنا قطعی مشکل نہیں ۔خطے میں کوئی بھی تحریک چلے مغرب میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے شکوک اور خوف کے سائے لہرانے لگتے ہیں ۔ایسے میں ایک ایٹمی طاقت روزی روٹی کی محتاج ہو کر کلی طور پر بیرونی امداد کے رحم وکرم پر آجاتی ہے تو مغرب اپنی دیرینہ خواہشات کی تکمیل کے دبائو بڑھا سکتا ہے کہ پاکستان کا مسئلہ معیشت کی بحالی ہے خطرناک ہتھیار نہیں۔پاکستان کا معاشی بحران پاکستان کے اثاثوں کو بوجھ بنانے کی طویل المیعاد حکمت عملی کا نتیجہ ہے ۔ایسے میں حکومت معاشی صورت حال پر قابو پانے کے لئے ایک کے بعد دوسرے تجربہ دہرانے کا عمل شروع ہوگیا ہے ۔یہ سرجری کے مریض کا اینٹی بائیوٹک سے علاج ہے ۔اس سے دن تو گزر سکتے ہیں مگر حالات میں کوئی جوہری واقع ہونے کا امکان کم ہی ہے۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ حکومت بالغ نظر اور تجربہ کار لوگوں پر مشتمل ہے ۔وزیراعظم دہائیوں کاانتظامی تجربہ رکھتے ہیں۔وزیر خارجہ ،وزیر تجارت وزیر دفاع ،وزیر دفاع ،وزیر مذہبی امور جس نام کو دیکھیں کوئی حکمرانوں کی تیسری نسل اور کوئی دوسری نسل کا نمائندہ۔گویاکہ کچھ کی گھٹی میں ہی اقتدار اور تجربہ ہے ۔اس کے باجود حالات سنبھلنے کی بجائے بگڑتے جا رہے ہیں ۔ان حالات کو بدلنے کی ایک موہوم امید عام انتخابات میں ہی نظر آتی ہے ۔وہ بین الاقومی ادارے جنہیں بوجوہ پاکستان میں موجودہ حالات میں انتخابات گوار ہ نہیں یہ بات تسلیم کررہے ہیں کہ پاکستان کا سیاسی بحران اور غیر یقینی معاشی بحران کو بڑھاوا دے رہی ہے۔سردست تو پاکستان میں حکومت برائے حکومت کے فلسفے کی حکمرانی ہے۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام