ایشیا میں موروثی سیاست کا دنگل

کوئی مانے نا مانے لیکن تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بہ ظاہر دوسری جماعتوں کو موروثی سیاست کا داغ کافی گہرا لگایا ہے۔ میاں نوازشریف، میاں شہباز شریف، مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور اب بلاول بھٹو زرداری جب کہ قوم پرست جماعتوں میں باچا خان، عبدالولی خان، بیگم نسیم ولی خان، اسفندیار ولی خان اور اب ایمل ولی خان۔ اس طرح دینی جماعتوں میں مفتی محمود، مولانا فضل الرحمن، عطاالرحمن، مولانا لطف الرحمن اور اسد محمود جیسے ایک ہی خاندان کا تسلسل سیاست میں نظر آتا ہے۔ یہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ بنگلہ دیش میں آپ کو شیخ مجیب اور ضیاالرحمن کا خاندان، سری لنکا کی راجہ پکسا فیملی جب کہ ہندوستان میں گاندھی خاندان سے کون واقف نہیں ہے۔ یہ غالباً اس خطہ میں بادشاہت کی تاریخ اور تہذیب سے تعلق رکھتا ہے۔ شاید ہمارے عوام شاہ پرست رہے ہیں۔ لیکن بہرحال اب آہستہ آہستہ اس خطہ میں تبدیلیاں آنے لگی ہیں۔ ہندوستان میں تو بھارتی جنتا پارٹی کے وزیراعظم نریندر مودی نے تو گاندھی خاندان اور ان کی کانگریس پارٹی کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ بڑے بڑے نام کانگریس کی کشتی سے چھلانگ لگا چکے ہیں جیسے بسوا شرما،جب کہ کانگریس کے خلا کو پر کرنے کے لیئے”عام آدمی پارٹی”ایک کمزور مگر موثر آواز بن کر میدان میں ہے۔ یہاں تک کہ پنجاب جہاں بی جے پی تمام خواہشات کی بنا پر کانگریس کے آگے بے بس نظر آ رہی تھی اب کانگریس کے جنازے کے ساتھ ہی عام آدمی پارٹی نے پنجاب میں جنم لے لیا ہے۔
کانگریس کے اندر اور کانگریس کے باہر یہ بحث کئی برسوں سے جاری ہے کہ کیا 24 -اکبر روڈ پر واقع کانگریس کے ہیڈکوارٹر پر 10- جنپت(گاندھی خاندان کا گھر)کے سائے ہمیشہ برقرار رہیں گے۔جنوبی ایشیا کے ڈیڑھ ارب آبادی کے ملک کا ایک اہم ترین سیاسی مسئلہ اب فیصلہ کن موڑ میں داخل ہو چکا ہے۔اس لیئے جنوبی ایشیا کے دیگر جمہوری پارلیمانی نظام کے حامل ممالک کے سنجیدہ حلقے بھی اس عمل میں دلچسپی لے رہے ہیں۔
مارچ1998 سے 2017 تک سونیا گاندھی ،پھر2019کے الیکشن تک راہول گاندھی اور اب 2022تک سونیا گاندھی کانگریس کے صدر کی کرسی پر موجود ہیں. چوبیس سال میں ایک نسل جوان ہوتی ہے۔ اس نسل نے پیدا ہونے کے بعد ماں بیٹے کو ہی کانگریس کی سربراہی کرتے دیکھا۔ پچھلے55 الیکشنز میں کانگریس نے 50الیکشنز میں ناکامی حاصل کی۔اس وقت 29ریاستوں میں کانگریسی حکومت صرف دو ریاستوں تک محدود ہو چکی ہے۔یو پی،مغربی بنگال اور دہلی جیسی اہم ریاستوں میں کانگریس پارٹی کی تنظیم عملی طور پر ختم تصور کی جا رہی ہے۔گو کہ کانگریس پارٹی سے جانے اور واپس آنے کا کلچر کافی پرانا ہے مگر موجودہ لہر کی ابتدا2016 میں آسام کے کانگریسی رہنما ہمانتہ بسوا شرما کے راہول گاندھی کے روئیے کے خلاف پارٹی چھوڑنے اور بی جے پی میں شمولیت سے ہوتی ہے۔اس وقت سات شمال مشرقی ریاستوں میں چھ پر کانگریسی حکومت تھی۔مگر ہمانتہ بسوا شرما کی تنظیمی صلاحیتوں کی بدولت 7 کی7 ریاستوں میں اس وقت بی جے پی کی حکومت ہے۔ اس کے بعد تو ایک سلسلہ شروع ہوا ریتا بہو گنا جوشی،آر پی این سنگھ،اروندر سنگھ لولی ، مدھیہ پردیش کے جیوتی رادتیا شندیا جس نے بغاوت کرکے اپنی پارٹی کی حکومت ختم کی تھی،امریندر سنگھ،سنیل جھکڑ،کپل سبل اور حال ہی میں پارٹی چھوڑنے والے پارٹی کے مسلم چہرہ غلام نبی آزاد۔
2020 ان ہی سینئر رہنمائوں نے سونیا گاندھی کو ایک خط لکھا تھا جس میں پارٹی تنظیمی معاملات پر پارٹی صدر کو تجاویز دی گئی تھی اور ساتھ میں لکھا گیا تھا کہ موجودہ حالات میں نہ پارٹی کے پاس کوئی لیڈر ہے اور نہ کوئی لائحہ عمل دکھائی دے رہا ہے ،مگر یہ خط میڈیا کو لیک ہو گیا تھا اور اس کے بعد گاندھی خاندان کے وفاداروں نے جی23 (خط لکھنے والے رہنمائوں کی تعداد 23تھی)پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔اس میں کچھ نے تو پارٹی چھوڑ دی کچھ خاموش ہوگئے اور کچھ نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔اس جدوجہد کے نتیجے میں22سال بعد کانگریس پارٹی کے صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں ، صدارت کے لئے پہلے امیدوار جو جی23کے قریب سمجھے جانے والے ششی تھرور نے اپنا نام آگے کر دیا ۔دوسری طرف وفاداروں کی فوج نے ہر ریاست میں پارٹی سے قرارداد پاس کروائی کہ راہول گاندھی خود پارٹی دوبارہ کمان سنبھال لے۔مگر راہول گاندھی کا صدارت نہ سنبھالنے کا فیصلہ اٹل ہے۔ناچار اب راجھستان کے وزیر اعلی اشوک گیلوٹ کو ششی تھرور کے مقابلہ میں میدان میں اتارا گیا ہے۔
ششی تھرور 30 سال تک اقوام متحدہ میں سفارت کاری کر چکے ہیں ،انگریزی زبان کے ماہر اور کامیاب لکھاری ہیں۔ 2009میں ہندوستان آئے لوک سبھا کا الیکشن لڑا اور اب تک کیرالا سے لوک سبھا کیرالا کے ممبر ہیں۔ لبرل اور فری مارکیٹ کے حامی ہیں ۔
دوسری طرف سینئیر سیاستدان اشوک گیلوٹ ہیں۔ تیسری بار راجستھان کے وزیر اعلی بنے ہیں۔ زمین سے جڑے ہوئے رہنما ہیں۔5 بار ریاستی اسمبلی اور 5 ہی بار لوک سبھا کے ممبر رہ چکے ہیں-پارٹی میں Old School of Thought یعنی پارٹی روایات کے حامی تصور کیئے جاتے ہیں اس لیئے گاندھی خاندان کے وفاداروں میں شامل ہیں اور اب تک ہندوستان کے واحد کانگریسی وزیر اعلی ہیں جس نے بہادری سے بی جے پی کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور جس سے بی جے پی کافی حد تک حائف ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تقریبا بائیس برس بعد کوئی غیر گاندھی رہنما کانگریس کی صدارت پر براجمان تو ہو جائے گا مگر کیا وہ گاندھی خاندان کا کوئی وفادار ہو گا کہ نہیں بلکہ نئی اور غیر روایتی سوچ کا حامل ہوگا؟اور کیا اس الیکشن سے برصغیر کی روایتی و وراثتی پارٹیوں پر کوئی اثر پڑے گا کہ نہیں؟ کیونکہ سیاست میں دلچسپی لینے والوں کے لیئے یہ اس حوالہ سے ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ مختصرا یہ کہ اس الیکشن سے اندازہ ہوگا کہ نہرو خاندان یا اندرا گاندھی کا نام آج بھی ووٹ کے لیئے کافی ہے یا عوام کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش