کالجوں میں فولنگ ‘ ایک مذموم فعل

یادش بخیر! 1970ء کے عشرے میں ہم کالج میں تھے ‘ کالج اور ہاسٹل کے احاطے میں قدم رکھنے سے قبل دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی تھیں کیونکہ فولنگ کے بارے میں اپنے گائوں وغیرہ کے بعض سینئرز سے کہانیاں پہلے ہی سن چکے تھے ۔ وہ دن آج بھی اچھی طرح یاد ہے جب ہم کالج کے ہاسٹل میں وارد ہوئے لیکن خیر گزری کہ اپنے کمرے تک خیر وعافیت کے ساتھ پہنچے ۔ البتہ گھنٹہ ڈیڑھ بعد دوتین خوش شکل و خوش پوش نوجوان ہمارے کمرے کے اندر آئے اور ہمارے ساتھ گپ شپ شروع کی۔ گپ شپ کے ہی انداز میں ہمیں فولنگ کے قبیح رسم سے گزارا گیا لیکن سچ کہا ہے کہ ”اولڈ از گولڈ”مجال ہے کہ کہیں اس زمانے کی فولنگ میں طلبہ کی تضحیک یا بے عزتی کے عنصر کا شائبہ بھی ہو۔ مجھ سے انہوں نے آبائی گائوں وہاں کے خاص رسم و رواج ‘ مشہور شخصیات اور پھر میرے سکول اور نمبروں کے بارے میں پوچھا ۔ آخر میں مجھ سے فرمائش کی گئی کہ ایک دو ٹپے خوش الحانی اور ترنم کے ساتھ سنائیں جو میں نے خوشدلی سے سنائے ۔۔ اور وہ متاثر ہو کر چلے گئے ۔ کالج میں آتے جاتے ‘ زیادہ سے زیادہ ”چرگ” اوئے ھلکہ ” کی آوازیں ایک ہفتہ تک سننے کو ملتی رہیں ۔ لیکن بہت جلد جب ریگولر کلاسیں شروع ہوئیں ‘ تو سارے طلبہ اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں یوں مشغول ہوئے کہ سر اٹھانے اور کھجانے کی فرصت نہ رہی اور پھر ایک سال دو بعد خیر سے ہم پروموٹ ہو کرسینئر بنے تو ہم نے بھی فولنگ کی عادت سی ضروری پوری کی تھی ‘ لیکن اس زمانے میں آج کل کی طرح بے ہودگی اور بد اخلاقی و بدتمیزی ہی کا تصور تک نہیں تھا۔ میں نے ”روزنامہ مشرق ” کے تعلیمی ایڈیشن کے صفحات پر کالجوں اور جامعات میں داخلے لینے والے طلبہ وطالبات کی رہنمائی کے لئے ہوئے کئی بار یہ عرض کیا کہ سینئر طلباء پر فرض عائد ہوتا ہے کہ دور دراز علاقوں اور دیہاتوں سے آئے طلبہ کے لئے میزبان و رہنما اور ہمدرد ساتھی اور دوست بن کر ان کے گھر اور خاندان سے جدائی و فرقت میں غمگساری کا کردار ادا کریں ‘ تاکہ وہ مستقبل میں آپ کا مخلص دوست بنے ۔ اس عمل سے جہاں نئے طلبہ کو رہنمائی و مدد ملے گی وہاں کالجوں اور جامعات کا تعلیمی ماحول خوشگوار اور پرامن رہے گا۔ طلباء کو ایک دوسرے کے حالات اور مختلف علاقوں کے رسم و رواج اور ماحول و جغرافیہ کے بارے میں معلومات بھی حاصل ہوں گی۔ یہی طلبہ جب تعلیمی اداروں سے فارغ ہو کر زندگی کے عملی میدان میں قدم رکھیں گے تو مل جل کر محبت و اخوت کے ساتھ وطن عزیز کی خدمت کریں گے ۔گزشتہ کئی عشروں سے جہاں پاکستانی معاشرے کے اخلاقی و تہذیبی اقدار کی چولیں ڈھیلی پڑ گئی ہیں وہاں اس کے اثرات زندگی کے ہر شعبے پر مرتب ہو رہے ہیں۔ اچھے اور بھلے زمانے میں فولنگ کا مقصد نئے طلبہ کا شرمیلا پن کم کرنا اوردیہات سے آئے طلبہ کو دیگر طلبہ کے ساتھ گھل مل کر کھیلنے کودنے اور مل جل کر آگے بڑھنے کے لئے تیار کرنا ہوتا تھا۔ لیکن اب تو نوبت یہ ایں جارسید کہ اعلیٰ عدلیہ کے فاضل چیف جسٹس صاحب کو ایڈورڈ کالج جیسے تاریخی تعلیمی ادارے میں فولنگ کے نام پر طلبہ کی مارکٹائی کا نوٹس لینا پڑا ہے جو بروقت ہونے کے ساتھ بہت ہی پسندیدہ اور برجستہ ہے ۔ چیف صاحب نے جامعہ پشاور کے محترم وائس چانسلر کوبھی مخاطب کیا ہے کہ جامعہ پشاور کے زیر نگرانی کالجوں میں بھی اس بات کا اہتمام کیاجائے کہ تعلیم کے لئے آئے نئے طلبہ کو سینئرز بے جا تنگ نہ کر سکیں۔
کالجوں اور جامعات میں ا یڈمنسٹریشن ‘ پرووسٹ آفس اور طلبہ تنظیموں کے عہدیداروں کافرض ہے کہ وہ چیف جسٹس صاحب کے کالجوں کے فولنگ کے حوالے سے لئے گئے نوٹس اور انتباہ کو سنجیدہ لیں اور اس حوالے سے ضروری قانونی اقدامات کریں تاکہ طلبہ کے ساتھ فولنگ کے نام پر اخلاقیات سے گری ہوئی حرکات سے تدارک کو یقینی بنایا جا سکے ۔ اس اہم کام کی انجام دہی کے لئے کالجوں کے پراکٹوریل بورڈ کے ساتھ ایکٹو و چا ق و چوبند اساتذہ کی کمیٹی بھی بنائی جائے تاکہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے طلبہ پرجرمانے عائد کرکے ان کو فولنگ جیسے ناپسندیدہ عمل سے باز رکھا جا سکے ۔
تعلیمی اداروں کے نوٹس بورڈوں پر اس حوالے سے قوانین کو پوری وضاحت کے ساتھ آویزاں کرکے اس کی کاپیاں طلبہ کے والدین کو بھی بجھوائی جائیں۔ اس کے علاوہ والدین ‘ طلبہ اور اساتذہ کرام کی میٹنگ میں بھی ضروری چیزیں طے کی جا سکتی ہیں میرے خیال میں وقت آن پہنچا ہے کہ تعلیمی اداروں میں قانون سازی کرکے فولنگ پر یکسر پابندی لگائی جائے ۔ دنیا کہاں نکل گئی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔اس حوالے سے ان طلبہ تنظیموں جو فولنگ کے خلاف ہیں ‘ مدد حاصل کرنا بھی معاون و مدد گار ہو سکتا ہے ‘ لہٰذا حکمت و دانائی کے ساتھ تعلیمی اداروں میں فی الفور اقدامات کئے جائیں تاکہ تعلیم کے حصول کے لئے آئے ہوئے طلبہ دل جمعی و اطمینان کے ساتھ اپنے منرل مقصود کی طرف گامزن ہو سکیں۔

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات