جو بھی کم ظرف ہو اوقات پہ آسکتا ہے

انگریز جب برصغیرپرپوری طرح قابض ہو گیا تو وہ جہاں اور بہت سی روایات اپنے ساتھ لایا تھا وہاں تعلیمی اداروں کے حوالے سے بھی کچھ اصول و ضوابط متعارف کرکے ان کے ہندوستانی معاشرے میں احیاء کی کامیاب کوششیں کیں ‘تاہم ہمارے پختون معاشرے میں ان روایات کو بعض ”عاقبت نااندیش” لوگوں نے انتہا تک پہنچا کر ہی چھوڑا ‘ انگریزوں کے زیر انتظام کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ان روایات کا مقصد اگرچہ کسی بھی طور”منفی” شکل دینا نہیں تھا مگر کچھ لوگوں کی انتہا پسندی کی عادات نے ان اچھی روایات کو بھی مثبت سرگرمیوں کے برعکس منفی طور طریقوں میں ڈھال کر ان کو بدنامی سے دو چار کیا ‘ ہمیں یاد ہے کہ جب ہمارے خاندان کے پہلے طالب علم نے سکول کی تعلیم مکمل کرکے کالج میں داخلہ لیا ‘ تو وہ کالج کے (داخلے سے لیکر کلاس شروع کرنے کے ابتدائی چند آیام)کے دوران جن تجربات سے گزرے اور گھر آکر وہ روزانہ گھر والوں(والدین سے لیکر ہم چھوٹے کزنز) کو یہ باتیں بتاتے تو ان باتوں کی دلچسپی سے ہم خوب لطف اندوز ہوتے ‘ پھر گرمی کی چھٹیوں کے دوران ان کے کالج نے کاغان اور ناران کا ٹور ترتیب دیا تو فورتھ ایئر سے لے کر فسٹ ایئر تک کے جونیئر طالب علم تقریباً ایک ماہ کے دورے پر ایک ساتھ روانہ ہوئے اور واپس آکر وہاں ہونے والی خوش کن سرگرمیوں کے قصے سناتے تو ہم سب ان کی باتوں سے محظوظ ہوتے ‘ تب راقم شاید پانچویں یا چھٹی جماعت کا سکول کا طالب علم تھا ‘ یوں یہ قصے سن سن کر ہم چھوٹوں کے دل میں بھی تمنا جاگتی کہ ہم بھی جلد از جلد میٹرک کا امتحان پاس کرکے کالج میں داخل ہو کر اس قسم کی سرگرمیوں کا حصہ بن جائیں ‘ آج یہ باتیں لگ بھگ 65 سال بعد اس لئے یاد آئیں کہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قیصر رشید نے تعلیمی اداروں میں فولنگ پر سخت سرزنش کرتے ہوئے کالجوں میں فولنگ کرنے والے طلباء کو کالج سے خارج کرنے کا حکم صادر کر دیا ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ تعلیمی اداروں میں فولنگ کے نام پر طلبہ کی تضحیک اور جھگڑے افسوسناک ہیں ‘ والدین کو بلا کر بچے کا بتائیں ‘ ایڈورڈ کالج میں فولنگ کے نام پر طلبہ ایک دوسرے کو مار رہے تھے ‘ یہ اخلاقیات نہیں ہیں جناب چیف جسٹس کی بات اپنی جگہ بالکل درست ہے اور کالم کے آغاز میں ہم نے جن روایات کی طرف اشارہ کیا وہ ہی کالجوں میں فولنگ کا”نظام” ہے جس کے اصل مقاصد موجودہ صورتحال کی بالکل برعکس تھے ‘ انگریزوں کا مقصد صرف یہ تھا کہ تعلیمی اداروں میں ایک کھلا ڈلا دوستانہ ماحول ہو ‘ جہاں نئے آنے والے نئے طلبہ ہنسی مذاق میں کالج کے پرانے طلبہ کے ساتھ گھل مل کر رہیں ‘ وہ ان سال اول کے طالب علموں کو مزاح(مذاق نہیں) کا نشانہ بنا کر دراصل ان کے اندر اگر کوئی خوف ہوتا تو اسے دور کرنا مقصود ہوتا ‘ یہ سلسلہ داخلوں سے لے کر ایک ڈیڑھ ہفتے تک ہی رہتا ‘ جس کے دوران نئے آنے والے طالب علموں کو سینئر ساتھیوں میں اچھے دوست مل جاتے ‘ جو آئندہ کے دنوں میں ان کی ہر طرح سے رہنمائی کرتے ‘ تاہم یہ مثبت روایات آہستہ آہستہ منفی رجحانات
میں تبدیل ہوتے ہوتے اب بدتمیزی اور بدتہذیبی میں ڈھلتی جارہی ہیں ‘ آج سے چند دہائیاں پہلے جب ہم نے گورنمنٹ کالج پشاور میں(1965ئ) داخلہ لیا تب گورنمنٹ کالج پشاور میں فولنگ کا سلسلہ اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ بعض بدتہذیب سینئر طلبہ نئے لڑکوں کے سفید شلوار قمیض( جو کالج کا یونفارم تھا) کو نیلی ‘ سرخ اور سیاہ رنگ کی روشنائی(انک) سے رنگین کرکے بزعم خود فولنگ کرتے تھے ‘ اس سے ایک دو جوڑے کپڑے خراب ہو جاتے ‘ یا پھر کچھ سینئر طلبہ سال اول کے طالب علموں کو گھیر کر ان سے کچھ عجیب و غریب نعرے لگوا کر خوش ہوتے ‘ لیکن صورتحال اتنے برس کے بعد اب صورتحال خاصی گھمبیر ہو چکی ہے اور جس طرف چیف جسٹس صاحب نے اشارہ کیا ہے تو یقینا یہ انتہائی قابل اعتراض صورتحال ہے یعنی فولنگ اگر جونیئر طلبا کی مار پیٹ اور ان کی
تضحیک کو پہنچ گئی ہے تو اس کو روکنا اشد ضروری ہوجاتا ہے ‘ ممکن ہے کہ بات مار پیٹ سے آگے جونیئر طلبہ کی عزت نفس سے کھیلنے تک پہنچ چکی ہو ‘ جوکسی بھی معاشرے میں قابل قبول نہیں ہو سکتا ۔ بابا بلھے شاہ نے یونہی تو نہیں کہا تھا کہ
جتھے ہون جہالتاں
بگلے لائون عدالتاں
کاں پٹے کرن و کالتاں
سب نوں ملن رذالتاں
دل دا شیشہ صاف نئیں ہوندا
اوتھے پھر انصاف نئیں ہوندا
فولنگ کی روایات کے جو قصے سینہ بہ سینہ چلتے ہوئے ہم تک پہنچے ہیں ا ن میں علی گڑھ یونیورسٹی کا تذکرہ خاص اہمیت کا حامل ہے ‘ وہاں سینئر طلباء میں ایک کردار گزرا ہے ۔ نام تو ان کا مسعود تھا مگر اپنی حرکتوں کی وجہ سے یونیورسٹی میں وہ مسعود ٹامی کے نام سے مشہور تھے ‘ کئی سال تک یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہے ‘ یعنی ایک مضمون میں ماسٹر ز ڈگری لیتے تو دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لیکر یونیورسٹی میں مقیم رہتے ‘ ان کی فولنگ کا سلسلہ صرف طالب عملوں تک محدود نہ رہتا ‘ بلکہ کالج کے اساتذہ تک ان کا شکار رہتے ۔ شیند ہے کہ ایک بار وائسرائے ہند نے یونیورسٹی کے دورے کا پروگرام بنایا تو مسعود ٹامی نے وائس چانسلر کو ان کے کمرے میں بند کرکے خود ریلوے سٹیشن پر جا کر وائسرائے کا استقبال کیا اور خود کو وائس چانسلر کے روپ میں پپش کیا ‘ تاہم جب یہ راز کھلا تو وائسرائے نے اس کو خوب انجوائے کیا ۔ اسی طرح کہتے ہیں کہ ایک بار غلطی سے ایک اونٹ یونیورسٹی کی حدود میں آگیا تو مسعود ٹامی اور ان کے ساتھیوں نے اسے ہاسٹل کی چھت پر پہنچا دیا ‘ یونیورسٹی انتظامیہ حیران تھی کہ اسے چھت پر کیسے پہنچایا گیا ہے اور اب اسے کیونکر اتارا جائے ‘ بالاخر مسعود ٹامی کی منت زاری کی گئی تو اس نے ہاسٹل کے ساتھیوں کو اشارہ کیا آناً فاناً تمام طلبہ اپنے اپنے کمروں سے بسترے لپیٹ کر ہاسٹل کی دیوار کے ساتھ ایک دوسرے پر رکھتے ہوئے ان بستروں کی سیڑھی بنا کرچھت تک پہنچا دیئے اور اونٹ کو آرام سے نیچے اتارا ‘ اب اس قسم کی حرکتیں تو قابل قبول ہوسکتی ہیں مگر کسی کی تضحیک کرنا کیونکر قابل قبول ہو سکتا ہے ۔ کہ بقول شاعر
باتوں باتوں میں خرافات پہ آسکتا ہے
جو بھی کم ظرف ہو ‘ اوقات پہ آسکتا ہے

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ