مشرقیات

صاحب سب ایک دوسرے کو چور کہہ رہے ہیں تو اسے دروغ برگردن راوی قرار نہیں دیا جاسکتا۔بھلا زمانہ اور بھلے لوگ تھے چور ی میرا پیشہ اور نمازمیرا فرض کے فلسفے پر پوری نیک نیتی سے عمل کرنے والے کبھی بھی اپنی برادری کی ایسے نقاب کشائی نہیں کرتے تھے جیسے آج کل کی جاتی ہے بلکہ چور برادری میں اتنا اتقاق تھا کہ ایک دوسرے کی پردہ پوشی کا ہر ممکن خیال رکھا جاتا تھا۔ایسے ہی ایک چور سے جب پولیس والوں نے اپنے ساتھیوں کا نام بتانے کا کہا تو وہ سوال کرنے والے کو پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھتے رہے تاہم مجال ہے جو اس نے سوال کرنے والے کو سب کے سامنے شرمندہ کرنے کے لیے ایک لفظ بھی منہ سے نکالا ہو۔بہرحال یہ بھلے زمانے کے رکھ رکھائو والے چور حضرات تھے اب تو حال یہ ہے کہ چور باقاعدہ وردی پہن کر بھی وارداتیں کرنے لگے ہیں پردہ پوشی کا بھرم ہی نہیں رہا تو خلق خدا بھی چوروں کا ذکر آتے ہی”لوٹ مار چھین برباد” کا ذمہ دار انہیں ہی سمجھتی ہے جو چوری کی واردات کے بعد متاثرین سے وقوعہ بارے معلوما ت لینے پہنچ جاتے ہیں۔ایسے ہی ایک موقع پر متاثرہ فرد سے روزنامچہ درج کرتے ہوئے حوالدار نے پوچھا ”راہزنوں کاحلیہ بتائو”تو آگے سے اس نے کہہ دیا شکل وصورت ،چال چلن اور لباس تک میں پکے پولیس والے لگتے تھے۔وردی کے ہوتے ہوئے شک تک ان پر نہیں کیا جاسکتا تھا۔اس جواب کے بعد متاثرہ شخص کو روزنامچہ اور گھر کا کرایہ دے کر رخصت کر دیا گیا۔ان وردی پوشوںکی طرح اب سیاسی رہنمائوں نے بھی نیرنگی زمانہ کے باعث وہ جو ن بدلی ہے کہ اس ملک کے ہر بندے کو پکا یقین ہوچکا ہے کہ” سب چور ہیں”۔ابھی کل پرسوں کی بات ہے سڑکوں پر گھسیٹنے اور چوری کا مال پیٹ پھاڑکر نکالنے کے ڈائیلاگ بولنے والے ایک ہی دسترخوان پر آج بیٹھے دیکھے جا سکتے ہیں۔انہیں اتفاق سے کھاتے پیتے دیکھ کر کسی کو کم ہی حیرانی ہوئی ہے اوپر سے کپتان رات دن ان کی چوری کے وہ قصے پورے تین سال تک سناتے رہے کہ بچے بچے کو چورچورکی گردان ازبر ہوگئی تاہم کپتان بھول گئے تھے کہ ایک روز ان کی اپنی گردن بھی اس گردان میںآسکتی ہے آج تک وہ جنہیں چور کہتے آئے ہیںوہ بھی کپتان کے بارے میں انہی خیالات زریں کا اظہار کرنے لگے ہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ دونو ں فریقوں کے پاس اتنے وزنی دلائل ہیںکہ ہم ان کے دعوئوں اور الزامات کو رد کرہی نہیں سکتے۔جب وہ خود ایک دوسرے کے کپڑے اتار نے پر لگے ہوئے ہیں تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ننگے نہیں ہو رہے ؟اور دوسری بات یہ کہ ہما شما یعنی عوامی گزشتہ پچھترسالہ زندگی دیکھ کر بھی یقین ہونے لگتا ہے کہ اس گھر میں ڈاکو گھس کر بیٹھے ہوئے ہیں ،کیا ستم ظریفی ہے کہ ڈاکو خود بھی ایک دوسرے کی پردہ پوشی نہیں کر رہے اور ایک ہم ہیں جو ان کے ہاتھوں بار بار لٹنے کو تیار بیٹھے ہیں۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے